کرشماتی لیڈر جب عوام کو خواب دکھاتے ہیں تو یہ قابل تنقید نہیں قابل تحسین بات ہے۔ خوابوں سے ہی تو کسی لیڈر کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے اور جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے وہی ان کے لیڈر کے دل میں بھی ہے۔ تو وہ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔لوگوں کو یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ لیڈر ان کی تلخیٔ ایام کا پورا پورا ادراک رکھتا ہے۔ یہ تو عمران خان کے خوابوں کی کشش تھی جس نے ووٹروں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف مائل کیا۔ گزشتہ روز ہیوی ویٹ اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت کے بعد جو فیصلے ہوئے ان سے ایک بات تو عیاں ہو گئی کہ حکومت کے پاس خوش رنگ خوابوں کا ایک گل دستہ تو ضرور موجود تھا مگر ان خوابوں کی تعبیر کا کوئی واضح قابل عمل منصوبہ نہ تھا۔ حکومت کے پاس بڑی بڑی توقعات کے بہت سے خوش نما اندازے تو تھے مگر یہ اندازے حقیقت پسندی سے کوسوں دور تھے۔ اسی لئے گزشتہ روز پہلے اقتصادی پلان کے ساتھ ساتھ دوسرے پلان کی تیاری کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس صورت حال کی واضح تصویر کشی کے لئے ہمیں پنجابی زبان کی ایک ضرب المثل کا سہارا لینا پڑے گا: بوہے آئی جنج ونہو کُڑی دے کن بارات دروازے پر پہنچ چکی ہے اب دلہن کے کان چھیدنے کے لئے بھاگ دوڑ کرو۔یہ بات تو اظہر من الشمس ہو گی کہ برسر اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف نے کوئی بھر پور ہوم ورک کر کے اپنی اقتصادی‘ تعلیمی‘ انتظامی اور طبی پالیسیاں تیار نہیں کی تھیں۔ بے یقینی اور تردد کسی بھی حکومت کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔ حکمرانوں کی لائوڈ تھنکنگ اور بلندو بانگ دعوے خود ان کے پائوں کی زنجیر بنتے جا رہے ہیں۔ شرح نمو تقریباً 6فیصد سے چار ساڑھے چار فیصد پر آ چکی ہے۔ درآمدات کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ پہلے حکومت نے کہا کہ نان فائلرز گاڑیاں اور پراپرٹی خرید سکیں گے‘ پھر حکومت نے خود یہ اعلان واپس لے لیا۔ ادھر ٹیکس نیٹ ورک کو وسیع تر کرنے کی بجائے ایف بی آر نے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی گردنوں کے گرد شکنجے کسنا شروع کر دیے۔ اسی بناء پر صنعت کاروں اور تاجروں کے اندر بہت بے چینی دکھائی دینے لگی۔ جائیداد‘ تعمیرات اور پیسے کی ریل پیل کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے جب آپ کسی چھوٹے بڑے تاجر سے پوچھیں کہ کاروبار کیسے جا رہا ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں سردبازاری ہے اور خریدوفروخت بہت کم ہے۔ ان سو دنوں کی اچھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ کسی شخص کے حوالے سے کرپشن کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی قیادت ایک خوبی یہ ہے کہ جب وہ دیکھتی یا محسوس کرتی ہے کہ اس کی پہلی پالیسی درست نہ تھی تو وہ اس پالیسی کو ترک کرنے اور نئی پالیسی اختیار کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتی۔ انگریزی محاورے کے مطابق مشکلات تنہا نہیں اکٹھی آتی ہیں۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے اور بلیک لسٹ میں شامل نہ کئے جانے کے بارے میں 27اقدامات پر عمل کرنے کے لئے 15دسمبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ تنظیم کے آسٹریلیا میں 5تا 7جنوری کو ہونے والے اجلاس سے قبل مجوزہ کڑے اقدامات کے بارے میں واضح لائحہ عمل دینا ہو گا۔ ہمیں یہ دعویٰ تو نہیں کہ ہم ماہر اقتصادیات ہیں مگر ہماری اقتصادی امور سے جو شُد بُد ہے اس کی بنا پر ہم نے تقریباً ڈیڑھ دو ماہ قبل دلائل سے یہ عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر چارہ نہ ہو گا۔ اس لئے یہ کڑوا گھونٹ پینے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت کی نیک نیتی پر تو اکثر لوگوں کوکوئی شک و شبہ نہیں‘ سوائے مولانا فضل الرحمن کے۔ مولانا کو اس حکومت سے شاید کوئی ذاتی اختلاف ہے۔ اس لئے وہ دل کی بات کو چھپانے کا ہرگز تکلف نہیں کرتے اور بار بار بتاتے ہیں کہ انہیں یہ حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ہمیں تو حکومت کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں مگر ان کی ہنر مندی یقینا محل نظر ہے۔ہم نہایت صدق دل کے ساتھ حکومت کو روز اول سے یہ تجویز دے رہے ہیں کہ آپ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھر پور اقدامات ضرور کریں۔ مگر کرپشن کی بیخ کنی کو اپنی اول و آخر ترجیح قرار نہ دیں۔ پہلے سو روز میں حکومت کو اپنے 11نکاتی انتخابی منشور کے لئے جس بھر پور ایکشن پلان اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی اس پر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم سمیت ساری حکومت نے کرپشن کے خاتمے کے لئے اپنی فکری و انتظامی انرجی زیادہ استعمال کی ہے۔ حکومت کی سب سے پہلی ترجیح معیشت کی بحالی و بہتری ہونی چاہیے تھی اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ سے مدد لینے میں کوئی حجاب نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پارلیمنٹ سے کسی بھی حکومت کو مجموعی دانش میسر آتی ہے۔ حکومت نے پہلے سو دنوں کے 11نکاتی پروگرام کے لیے ایک واضح حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان نکات میں سے دو تین پر تو کوئی عملی پروگرام اور پالیسی سامنے آ گئی ہے مگر باقی ماندہ نکات حکومت کی نگاہِ کرم کے منتظر ہیں۔ چیدہ چیدہ نکات میں 5برس میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے علاوہ 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ ایک ارب درخت لگانے کی نوید بھی سنائی گئی تھی۔ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کو باہنر کرنے کے لیے مختلف پروگرام بروئے کار لانے کی بات بھی کی گئی تھی‘ زرعی ترقی کا سنہری خواب بھی دکھایا گیا تھا۔ اڑھائی کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بھی عندیہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اسی طرح یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کی بات بھی کی گئی تھی اور ٹیکس کے نظام کو سہل کرنے اور برآمدات پر بہت بڑی چھوٹ دینے کی خوشخبری بھی سنائی گئی تھی۔ 50لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک ارب درخت لگانے کے بارے میں تو کوئی عملی پروگرام سامنے آیا ہے‘ باقی نکات پر عمل درآمد کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔ ظاہر ہے کہ پہلے سو دنوں میں تو یہ کچھ نہ ہونا تھا اور نہ ہی کسی کو اس کی توقع تھی مگر حکومت کو آغاز ہی میں اپنی ترجیحات واضح کر دینی چاہئیں تھیں۔ بلا شبہ حکومت قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کرپشن کے خاتمے کے لئے ضرور اقدامات کرے‘ مگر اس کی پہلی ترجیح معیشت اور دوسری جمہوریت ہونی چاہیے۔ جمہوریت ہی سے پاکستان وجود میں آیا تھا اور جمہوریت ہی ہمارے قومی استحکام کی بنیاد ہے۔ جمہوریت کے لیے حزب اقتدار جتنی ضرور ہے اتنی ہی ضروری حزب اختلاف بھی ہے۔ مضبوط پارلیمنٹ مضبوط پاکستان کے لیے ازبس ضروری ہے۔ پہلے سو دنوں میں حکومت کی پارلیمانی کارکردگی بھی اچھی ہے ناتجربہ کاری کی کوئی بات نہیں مگر پہلے سو دنوں میں حکومت کی ترجیحات کا واضح تعین تو ہو جانا چاہئے تھا۔