یہ شہر کے ایک سپر سٹور کا منظر ہے۔ دالوں‘ چینی‘ گھی اور گھر کی دیگر ضروری اشیاء سے ریک کے ریک بھرے ہوئے ہیں اور ان کے قریب کھڑی دو خواتین ‘ کپتان کی تبدیلی اور ریلیف پیکیج کا رونا رو رہی ہیں۔ایک خاتون بزرگ ہے اور دوسری ان کی بیٹی یا بہو دکھائی دیتی ہے۔ حلیے سے دونوں کسی سفید پوش گھر کی خواتین دکھائی دیتی ہیں۔ جو بددعائیں اور دہائیاں بزرگ خاتون کے منہ سے نکل رہی تھیں انہیں تحریر کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے یہ منظر‘ ہفتہ پہلے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پہلی دفعہ میں نے اس طرح کسی پبلک مقام‘ سٹور ‘ کسی دکان‘ کسی مارکیٹ‘ بازار یا چوراہے میں‘ ایک عام پاکستانی کو حکومت وقت کو بددعائیں دیتے سنا۔ مجھے اس کی وجہ پہلے تو سمجھ نہ آئی کہ ایک سپر سٹور میں بظاہر سفید پوش خریدار کا کیا کام۔میں جو چند قدم کے فاصلے پر گروسری کی ٹرالی پکڑے کھڑی تھی‘ ان کے قریب پہنچی تو بولی ماں جی!خیر تو ہے کیا ہوا؟ماں جی جو پہلے ہی اپنے تہی کیسہ ہونے پر پرملال اور جلال میں تھیں بولیں کہ ہونا کیا ہے بیٹا‘ یہاں ایک طرف ڈی سی ریٹ پر دالیں چینی اور گھی کا ریک ہوتا تھا جو پچھلی حکومت نے ایسے سٹوروں پر رکھوانے کا اہتمام کیا تھا جہاں ضروری چیزیں سستے داموں مل جاتی تھیں۔ میں اکثر یہاں سے ڈی سی ریٹ پر دالیں اور گھی خریدتی ہوں۔آج آئی ہوں تو سٹور والے بتا رہے ہیں کہ سستی دالوں والے ریک حکومت نے اٹھوا دیے ہیں۔ یہ حکومت ہمیں فاقوں پر لے آئی ہے۔ ناس کے بعد پھر ماں جی نے ’تبدیلی‘ اور حکومت کو ایک بھڑکتا ہوا خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ غریب کی آہ اب ان حکمرانوں کو لگے گی۔بعدازاں میں نے شہر کے کچھ اور بڑے سٹوروں پر بھی اسی حوالے سے معلومات لیں‘ تو معلوم ہوا کہ حکومت کی طرف سے تمام بڑے سٹوروں پر قائم کئے ہوئے ڈسی ریٹ پر ارزاں قیمت پر دستیاب دالیں‘ چینی ‘ گھی کے شیلف ختم کر دیے گئے ہیں۔ ارے او تبدیلی کے دعوے دارو۔ اگر غریبوں اور سفید پوشوں کے حق میں کوئی اچھا کام ہو رہا تھا تو تم نے اس کو ختم کر کے اس طبقے کی بددعائیں ضرور لینی تھیں۔ خود نہیں کر سکتے تو جو پہلے سے ہو رہا ہے اسے تو ہونے دو!اب مجھے یقین ہو گیا کہ اس حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرروت ہی نہیں۔ ایک تو ان کے ہر یوٹرن کے سامنے ان کے اپنے دعوے‘ اپنے بیانات اور کنٹینر کی دھواں دھار تقریریں۔ آئینے کی طرح منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ جنہیں یار دوست ہر یو ٹرن کے بعد وائرل کر دیتے ہیں اور دوسرا ایسی حکومت کو کسی اور کی دشمنی نقصان نہیں پہنچا سکتی جو خود اپنی دشمنی پر اتر آئی ہو۔ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔! اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ لوگوں کی برداشت جواب دے رہی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک اور تشویشناک صورت حال ہے کہ لوگ چیز خریدنے کے لئے پیسے لے کر جائیں تو وہاں معلوم ہو کہ اس کی قیمت بڑھ چکی ہے اور پھر وہیں سرِراہ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو وہ صلواتیں سنائیں کہ جو احاطہ تحریر میں نہ آ سکیں۔ مہنگائی ہمیشہ رہی ہے‘ گوناگوں مسائل سے عوام کو ہمیشہ واسطہ پڑتا رہا ہے۔ لیکن اب جا کے لگتا ہے کہ اس وقت پھر حالات کچھ قابو میں تھے۔ لوگ حکمرانوں کے خلاف اس قدر بپھرے ہوئے نہیں تھے۔ نااہلی کی بھی ایسی تماشاگری نہیں تھی جو اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا لطیفہ اور تازہ یوٹرن‘ سامنے آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ادھر وزیر اعظم کابینہ کو جھاڑ پلا کر مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں‘ ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہیں اور ادھر چینی کی قیمت جو اس ریلیف پیکیج سے پہلے 68روپے تھی‘70روپے ہو جاتی ہے اور گھی جو 170روپے کلو بکتا تھا تاریخی ریلیف پیکیج کے اعلان کے ساتھ 175تک جا پہنچا ہے۔ اب تو عوام وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج کے اعلان کے ساتھ ہی سہم جاتے ہیں کہ مہنگائی کا ایک اور تازیانہ انہیں سہنا پڑے گا۔یوٹیلیٹی سٹورز کی بات کر لیتے ہیں۔ جہاں نام نہاد ریلیف پیکیج دے کر حکومت مطمئن ہے کہ غریب شہرکے درماں کا علاج کر دیا ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز تک بھی غریب کی رسائی نہیں ہوتی۔ جہاں ستر فیصد آبادی غریب ہو وہاں یوٹیلیٹی سٹورز کی شرح بہت کم ہے۔ بلکہ جہاں میں رہتی وہاں کے دو یوٹیلیٹی سٹورز گزشتہ رمضان میں بھی بند ہو گئے تھے اور یہ سانحہ بھی وزیر اعظم کے رمضان پیکیج کے بعد ہوا۔ ایک ٹی وی چینل پر غریب دہائیاں دے رہا تھا کہ ہم کیسے کرائے خرچ کر کے یوٹیلیٹی سٹوروں پر جائیں وزیر اعظم نے چیزیں سستی کرنی ہیں تو ہر جگہ سستی ہونی چاہئیں اور یہ حقیقت پسندانہ بات ہے غریب شہر اپنی آبادیوں میں اپنے گلی محلوں میں کھلی چھوٹی چھوٹی پرچون کی دکانوں سے ضرورت کا سامان خریدتا ہے۔ اسے ان ریلیف پیکیجوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکومت ’’خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘کے جذبے سے سرشار ان تمام سہولتوں پر لکیر پھیرتی جاتی ہے جو معاشرے کے بالکل پسے ہوئے طبقے کوحاصل تھیں۔93ہزار بھٹہ مزدور بچوں کے سرکاری وظائف مفت یونیفارم کاپیاں کتابیں بستے۔سب بند کر دیے گئے ہیں۔ کیونکہ سادگی کا پروردہ حکومت نے اس مد میں نئے فنڈ جاری نہیں کئے۔ سو ریاست مدینہ میں 50ہزار مزدور بچے سکول چھوڑ کر پھر بھٹہ مزدوری پر مجبور ہیں۔اس حکومت کو کسی حریف‘ کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں۔یہ اپنی حریف خود ہے!