وزیراعظم عمران خان نے آئندہ بجٹ میں اپنی سادگی پسند پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے حکومتی اخراجات کم سے کم سطح پر رکھنے کا کہا ہے ۔ایک ایسا ملک جو قرضوں میں ڈوبا ہواور جس کی معیشت کو بحران سے نکالنے کے جتن کئے جا رہے ہوں اس کے سربراہ کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومتی اخراجات سے مراد حکومتی شخصیات اور اداروں کے ذریعے خرچ ہونے والی رقوم ‘سرمایہ کاری‘ رقوم کی منتقلی‘ اشیاء کی خریداری اور خدمات کا حصول شامل ہے۔ حکومتی اخراجات عموماً متعین کردہ حجم سے زیادہ ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ادھار لیتی ہے یا پھر نئے ٹیکس لگاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں مالیاتی دبائو عام شہریوں کو منتقل ہوتا ہے اور ان کی مشکلات بڑھنے لگتی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کبھی بھی تسلی بخش حالت میں نہیں رہی۔ حکومتوں نے سرمایہ کاری‘ تجارت اور پیداواری شعبوں کا سرسری ذکر اپنی پالیسیوں میں ضرور شامل کیا مگر عملی صورت حال قطعی مایوس کن ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما اس امر سے آگاہ ہیں کہ ملک غیر ضروری اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا اس کے باوجود سابق ادوار میں سرکاری رقوم صرف منتخب سربراہ یا منتخب عوامی نمائندے کی ضروریات پر خرچ نہیں ہوتی رہیں بلکہ پورا خاندان اور کنبہ عوامی خزانے سے استفادہ کرتا رہا۔ کئی بار قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنے خاندان کے افراد کو ایسی ذمہ داریاں تفویض کر دی جاتیں جن کی آڑ میں اخراجات پر اعتراض ختم کر دیا جاتا۔ یقینا بلاول ہائوس کے اخراجات‘ ملازموں کی تنخواہیں اور سندھ پولیس کی پروٹوکول ڈیوٹیوں کی ستائش نہیں کی جا سکتی مگر پنجاب میں حالت اس سے بھی بری رہی ہے۔ دس برس تک لاہور شہرمیں چار گھروں کو وزیر اعلیٰ ہائوس کا درجہ حاصل رہا۔ شریف خاندان کی ذاتی جاگیر جاتی عمرہ کی چار دیواری کروڑوں روپے خرچ کر کے سرکاری کھاتے سے کرائی گئی۔ میاں نواز شریف ‘ان کی اولاد کے بچے اور کزن‘ شہباز شریف‘ ان کی اولاد اورپھر ان کے بچے الگ الگ پولیس سکواڈ کے ساتھ گھر سے نکلتے۔ یہ سب اس دور میں ہو رہا تھا جب ہم معیشت کو زندہ رکھنے کے لئے دھڑا دھڑ قرضے لے رہے تھے۔ عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد سادگی مہم شروع کی۔ مختلف ممالک کے سفرااوروفود ان سے ملاقات کے لئے آتے تو ان کی سادہ پانی اور چائے کے کپ سے تواضع کی جاتی۔ بعدازاں انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو تقریب میں غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم ہائوس کے ٹرانسپورٹ سکواڈ میں درجنوں گاڑیوں کو وزیر اعظم کی ضرورت سے زائد قرار دے کر فالتو گاڑیاں نیلام کرنے کا حکم دیا۔ چند بھینسوں کو نیلام کیا گیا جنہیں سابق وزیر اعظم نے سرکاری خرچ پر پال رکھا تھا۔ وزیر اعظم نے کئی ایکڑز پر پھیلے وزیر اعظم ہائوس میں رہائش کی بجائے منسٹر کالونی میں رہائش اختیار کی۔ مخالفین کا ان اقدامات پر طنز سیاست کا حصہ ہے مگر وزیر اعظم عمران خان نے سادگی مہم کو سب سے پہلے اپنی ذات اور ضروریات پر نافذ کر کے ایک اچھی مثال قائم کی۔ پاکستان کے عوام عموماً اپنے حکمرانوں سے ایسی مثبت چیزوں کی توقع کم ہی کرتے ہیں۔ چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ فوج اپنے بجٹ میں اضافہ نہیں کر رہی بلکہ اس بار اتنے ہی بجٹ سے کام چلائے گی جتنا گزشتہ برس ملا۔ یہ ایک اچھی خبر اور اس بات کا اعلان ہے کہ مالی مشکلات کے دور میں افواج پاکستان عام شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ گزشتہ برس سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ڈیموں کی تعمیر کے لئے عطیات کی اپیل کی تو مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں نے اس کار خیر میں نمایاں حصہ ڈالا۔ پاکستان کی مالیاتی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں چالیس فیصد کمی ہوگئی ہے۔ افراط زر کی شرح بڑھی ہے۔ شرح نمو میں کمی آئی ہے۔ یہ سب اشارے اچھی خبریں نہیں مگر یہ ساری صورت حال اس وقت تشویشناک ہوتی جب ہم دیکھتے کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ وزیر اعظم نے اسد عمر اور ان کی ٹیم کو پورا موقع دیا کہ وہ معاشی بحران سے چھٹکارا کے لئے اقدامات کریں۔ جب نتیجہ مثبت طور پر برآمد نہ ہوا تو انہوں نے ایسے ماہرین کی ٹیم تشکیل دیدی جو آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے معاملات میں مہارت رکھتی ہے۔ اس ٹیم کی کوششوں سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کسی قدر استحکام پیدا ہوا ہے۔ سٹاک مارکیٹ اور دیگر انڈیکیٹر بھی مثبت دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی کاوشیں درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے دفاتر میں سادگی مہم کو رواج دیا ‘آرمی چیف ان حالات میں کفایت شعاری کو فروغ دے رہے ہیں ۔اس موقع پر وزراء کرام ‘ مشیر خواتین و حضرات اور ساتھ ساتھ افسر شاہی سے توقع کی جاتی ہے کہ ملک کے ابتر معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے وہ بھی سادگی اور کفایت شعاری کو فروغ دیں گے۔ ایئر کنڈیشنر کا غیر ضروری استعمال روک کر‘ مہمانوں کی تواضع پر بھاری اخراجات سے گریز کر کے‘ سرکاری وسائل کا استعمال خوب سوچ سمجھ کر کیا جائے تو ایک سال میں اتنے روپے بچ سکتے ہیں جن سے کسی ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور افسر شاہی اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے تو عوام بھی ان کی تقلید میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس سے غیر ملکی قرضوں کے لئے در در پر بھیک مانگنے کی بجائے ہمیں قومی سطح پر خودداری اور وقار فروغ پاتے نظر آئیں گے۔