وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے موجودہ اور آئندہ چیف جسٹس صاحبان سے ملک میں انصاف کو آزاد کرنے کی اپیل ہراس پاکستانی کے دل کی آواز ہے جو کسی بھی وجہ سے انصاف سے محروم رہ گیا۔ معزز جج حضرات سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پولیس حراست میں مرنے والوں سے لے کر جیلوں کی تاریک اور بدبودار کوٹھڑیوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کے پاس دولت ہے، وسائل ہیں اور اثرورسوخ ہے وہ قانون اور انصاف کا تمسخر اڑا کر نکل جاتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا، اللہ کے آخری نبیؐ نے قریش جیسے طاقتور قبیلے کے ایک بارسوخ خاندان کی خاتون کو چوری پر سزا دینے کی حمایت کی اور اسے چھوڑنے کی سفارش کرنے والوں سے فرمایا کہ ’’اس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا جرم کرتی تو اسے سزا ملتی‘‘۔ رسول اللہؐ کا یہ اعلاان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ناانصافی سے بچاتا ہے۔ ایک سال قبل پاکستان کی عدالتوں میں 18لاکھ مقدمات زیر سماعت تھے۔ بہت سے مقدمات کئی برسوں سے زیرسماعت ہیں جن پر فیصلوں کی نوبت نہیں پہنچ رہی تھی۔ ججوں کی کم تعداد، ناقص تفتیش اور نظام کی کمزوریاں انصاف کی بروقت فراہمی کے راستے میں کھڑی ہیں۔ اس ماحول میں اگر کوئی عوام کے دکھ کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بدعنوانی سے مستفید ہونے اور جرائم سے منافع کشید کرنے والے حلقے اپنے با اثر اتحادیوں کی مدد سے ایسی دھول اڑاتے ہیں کہ اصلاح احوال کے خواہش مند خود کو پہچان نہیں پاتے۔ عوامی سطح پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو بہرحال یہ اعزاز ملے گا کہ اس نے غیر آئینی ا ور ماورائے قانون کسی عمل کی پیروی کرنے کے بجائے قانونی طریقہ کار اختیار کیا اور میاں نواز شریف باقاعدہ ایک بیان حلف جمع کرانے کے بعد بیرون ملک علاج کے لیے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں قبل ازیں ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ ایک بیمار سزا یافتہ قیدی علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا ہو۔ میاں نواز شریف ایئرایمبولینس کے ذریعے ملک سے جا چکے ہیں۔ انہیں لندن میں اپنی ذاتی رہائش اور بہترین ڈاکٹر اور طبی سہولیات حاصل ہوں گی۔ عدالت عالیہ نے انہیں علاج کی جو مہلت دی ہے ڈاکٹروں کی رپورٹ پر اس میں توسیع ممکن ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد توسیع کے انتخاب سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے تا ہم سیاسی نظام اور ریاستی عملداری کے خواہاں ماضی کے بعض واقعات کو پیش نظر رکھ کر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔ قومی سیاست کا المیہ ہے کہ سیاستدان اپنی ساکھ تیزی سے کھو رہے ہیں۔ وہ ملک جس کے پاس بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں اصول پسندی کی عملی مثال موجود ہو وہاں بے اصولی اور خلاف قانون سرگرمیوں کو کسی طرح پذیرائی نہیں دی جا سکتی۔ پھر رسول اللہؐ کے فرمان پاک کے برعکس ملک کا نظام انصاف طبقاتی تقسیم کی گواہی دے رہا ہو تو سب سے زیادہ فکر مند حکومت کو ہونا چاہئے۔ حکومت کو صرف فکر مندی کے اظہار پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی جائے جو نظام انصاف میں پائی جانے والی خرابیوں کی اصلاح کر سکے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران محترم چیف جسٹس کی خصوصی دلچسپی کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں ماڈل کورٹس نے کام شروع کر دیا ہے۔ ان ماڈل کورٹس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چند ماہ میں لاکھوں مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے ان لوگوں کو ریلیف ملا ہے جو برسہا برس کی عدالتی چارہ جوئی سے مایوس ہوبیٹھے تھے۔ سیاسی شعور جب بیدار ہوتا ہے تو انفرادی واقعات اجتماعی آسانیوں کا ذریعہ بننے لگتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی بیماری اور پھر انہیں علاج کے لیے سہولیات و بیرون ملک جانے کی آزادی کا معاملہ سات ہزار کے لگ بھگ بیمار قیدیوں کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ ان قیدیوں کو جیل سے باہر علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے عدالت عالیہ کے روبرو درخواست دائر کی گئی جو مزید کارروائی کے لیے صوبائی حکومت کو بھجوا دی گئی۔ ان شدید بیمار و لاچار قیدیوں کے لواحقین کو امید ہے کہ انسانی ہمدردی کے نام پر قائم کی گئی نظیر صرف دولت مند مجرموں کے لیے مخصوص نہیں رہے گی بلکہ بے آسرا قیدی بھی حکومت سے اس رعایت کے حصول میں کامیاب ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی ملک میں موجودگی کئی ہنگاموں کا باعث رہی۔ ان کی جماعت وقفے وقفے سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسی سرگرمیاں منظم کرتی رہی جن کا مقصد معمول کے حکومت معمولات میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا حالیہ دھرنا بھی ن لیگ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دیا گیا۔ پہلی بار مرکزی حکومت بنانے والے عمران خان کو یقینا بہت سے فیصلوں میں دشواری کا سامنا ہے۔ پوری ریاست کے دماغ کو ایک سمت متوجہ کرنا کار دشوار ہے۔ ان مشکلات پر قابو پانے کا ہنر انہیں وقت سکھا دے گا تا ہم جو کام فوری ان کی توجہ چاہتا ہے وہ عام آدمی کی مشکلات میں کمی ہے۔ یہ درست ہے کہ نظام انصاف کو آزادانہ اور سب کے لیے مساوی بنانے سے بہت سی ناہموار روایات ہموار ہو سکتی ہیں لیکن یہ مسائل کی پوری تصویر نہیں۔ حکومت کی کارکردگی جن سیاسی مسائل کے باعث متاثر ہوتی رہی اب ان میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں کمی، روزگار کے مواقع بڑھانا، برآمدات میں اضافہ، زرعی و صنعتی ٹیکنالوجی کا حصول اور ملک میں امن و امان قائم کرنا ان کی ترجیح ہونی چاہئے۔