اسلام آباد (اظہر جتوئی) پاکستان تحریک انصاف کی معاشی ٹیم کے دعوؤں کے برعکس ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے دو چار ہے جبکہ موجودہ حکومت کی غیر اطمینان بخش معاشی پالیسیوں کے باعث آئندہ سال 2020ء میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 2.8 فیصد تک متوقع ہے جبکہ رواں سال ملک میں مہنگائی کی شرح 7.3 فیصد تک پہنچ گئی ۔ وزارت خزانہ کے معاشی ٹیم کے دعوؤں کے مطابق ملک اس وقت معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے جبکہ ملکی برآمدات میں بھی ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ تاہم روزنامہ 92 نیوز کے پاس محفوظ دستاویزات کے مطابق اس وقت رواں سال میں مہنگائی کی شرح 7.3 فیصد تک کے اضافے کے ساتھ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ آئندہ سال 2020ء میں مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے ۔ بین الاقوامی معاشی ترقی کے اداروں کے مطابق ملک میں آئندہ سال مہنگائی کی شرح میں اضافے کے ساتھ شرح 12 فیصد تک پہنچے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ جبکہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس ابھی تک مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی موجود ہی نہیں ہے ۔ دوسری جانب رواں سال جی ڈی پی کی شرح 2.8 فیصد کے اضافے کے ساتھ ریکارڈ کی گئی جو کہ سال 2018ء کے دوران جی ڈی پی کی شرح 5.5 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ دستاویزات میں یہ حقا ئق بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک چین اور ادھر سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں سے ملنے والی مالی امداد سے ملکی بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں تو کسی حد تک حکومت نے اپنے لیے ریلیف حاصل کیا ۔تاہم ان اقدامات سے ملک میں معاشی بحران کو دور کرنے میں حکومت کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کی بنیادی وجہ معاشی پالیسی میں مربوط حکمت عملی کا فقدان بتایا گیا ہے ۔ ملک میں میں رواں سال 2019 کے دوران معاشی ترقی میں کمی دیکھی گئی ۔ کرنسی کی قدر میں قابل ذکر کمی سے افراط زر میں اضافہ ہوا لیکن اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کافی حد تک کمی میں مدد ملی۔ مالی سال 2018 میں جی ڈی پی کی ترقی 5.5 فیصد سے کم ہوکر رواں سال میں 3.3 فیصد تک ہوگئی تھی۔ دستاویزات کے مطابق رواں سال 2019 میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 24 فیصد تک کمی ہوئی اور مہنگائی بھی بہت زیادہ 7.3 تک رہی جو مالی سال 2018 میں 3.9 فیصد پر تھی۔ بڑھتی مہنگائی 'بنیادی طور پر کرنسی کی قدر میں کمی اور مقامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی عکاسی کرتی ہے ۔اس حوالے سے معاشی تجزیہ نگار اور وزارت خزانہ کے سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر اشفاق حسن نے مذکورہ اعدادوشمار کی تصدیق کرتے ہوئے روزنامہ 92 نیوز کو بتایا کہ بین الاقوامی تحقیقی ادارے موڈیز کی رپورٹ میں صرف پاکستان کی معیشت میں بہتری کی جانب ایک درجہ اضافہ کے سوا مزید کوئی ایسی بات نہیں بتائی گئی جو اس بات کی تائید کرے کہ موجودہ حکومت کے اقدامات کے باعث ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ موڈیز نے اپنی رپورٹ میں معاشی ترقی کی شرح 2.2 فیصدبتائی ہے جوکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے بتائے گئے گروتھ ریٹ 2.4 فیصد سے بھی کم ہے ،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی ٹیم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد اب آئندہ تین سال تک کسی قسم کی معاشی پالیسی متعارف کرانے اور معاشی ترقی کیلئے حکمت عملی اپنانے سے قاصر ہے ،ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا معاشی ٹیم کی مجبوری کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے ۔دستاویزات میں اس بات کا بھی انکشاف سامنے آیا کہ زائد مالی خسارے کو بنیادی طور پر مقامی سطح پر ادھار کے ذریعے پورا کیا گیا جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کمی ہوئی اور یہ مالی سال 2018 میں جی ڈی پی کے 6.3 فیصد سے مالی سال 2019 میں جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک پہنچ گیا۔ مقامی یوٹیلٹی قیمتوں میں منصوبہ بندی کے تحت اضافے ، مالی سال 2020 بجٹ میں متعارف کروائے گئے ٹیکسز اور کرنسی کی گراوٹ کے پڑنے والے اثرات کے باعث جولائی اور اگست میں 9.4 فیصد پر رہنے والی افراط زر مالی سال 2020 میں 12 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ جبکہ ٹیکس آمدنی بڑھ کر جی ڈی پی کے 14.3 فیصد تک ہوجائے گی جبکہ سال 2020 میں نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کے 2.3 کے ساتھ مجموعی آمدنی جی ڈی پی کے 16.6 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے ۔ ادھر سال 2020 میں اخراجات جی ڈی پی کے 23.8 فیصد کے برابر رہنے کا امکان ہے جبکہ اسی مالی سال میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 7.2 فیصد تک متوقع ہے ۔ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کی جانب سے ٹیکسوں اور درآمدی ڈیوٹیوں میں اضافے اور سست روی کا شکار معیشت کی وجہ سے بین الاقوامی آٹو مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو شدید مندی کا سامنا رہا ۔رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران گزشتہ سال کے 34 ہزار 264 یونٹس کے مقابلے میں 20 ہزار 94 یونٹس رہی، جو 41.3 فیصد یونٹس کی کمی ظاہر کرتی ہے ۔ اگست میں گاڑیوں کی فروخت کم ہوکر 9 ہزار 126 یونٹس رہی جو گزشتہ سال اس ہی مہینے میں 15 ہزار 389 یونٹس تھی۔