واپسی کسی ’’بے وفا‘‘ کی ہو یا کسی یارِ طرحدار کی ہو یا کسی سچے قومی رہنما کی ہو، اس میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ گزشتہ دو تین ہفتوں سے کوالالمپور میں مقیم ایک پاکستانی دوست کی جو تقریباً ملائی ہو چکا ہے۔ مجھے بار بار توجہ دلا رہا تھا کہ حضور! کنویں کے مینڈک نہ بن کر رہ جائیں کبھی کنویں سے باہر نکل کر بھی اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں۔ یہاں ملائیشیا میں ایک حیران کن تاریخ رقم ہو رہی ہے اور چپکے چپکے ہو رہی ہے۔ اس پاکستانی دوست کی ایک بیگم ملائشین بھی ہے۔ لہٰذا وہ ملائیشیا کی سیاست اور معاشرت کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے۔ مہاتیر محمد جدید ملائیشیا کے بانی تھے۔ 22سالہ وزارت عظمیٰ کے بعد 2003ء میں وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ ملائیشیا کی آزادی سے پہلے مہاتیر محمد نے جس جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی وہ اپنے طویل دورِ اقتدار میں بھی اسی سے وابستہ رہے مگر جب ان کے بعد آنے والے دو وزرائے اعظم عبداللہ احمد البدوی اور پھر نجیب رزاق نے انہیں اور عوام کو بے حد مایوس کیا تو پھر مہاتیر محمد اس جماعت سے 70سالہ رفاقت کا رشتہ 2016ء میں توڑنے پر مجبور ہو گئے۔ نجیب رزاق سابق وزیر اعظم ملائیشیا نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ پولیس تو رشوت کے لین دین میں بدنام تھی ہی، اس کے علاوہ ہر سرکاری محکمے میں بھی رشوت ستانی کا بازار گرم ہو گیا۔ نجیب رزاق کی وزارت عظمی کے دوران کسی بھی محکمے میں کوئی جائز سے جائز کام بھی رشوت لیے بغیر نہ ہوتا تھا۔ ملائیشیا کے اکثر سرکاری دفاتر میں یہ نعرہ زبان زدِ خاص و عام تھا کہ ’’تم ہماری مدد کرو ہم تمہاری مدد کریں گے‘‘ اسی ’’امدادِ باہمی‘‘ کے رائج الوقت کلچر سے عوام الناس تنگ آ چکے تھے۔ وہ مہاتیر محمد کا دورِ حکومت یاد کرتے اور آہیں بھرتے تھے۔ عوام کے شعور کی پختگی ملاحظہ فرمائیے کہ ان کی نگاہیں بار بار مہاتیر محمد ہی کی طرف اٹھتی تھیں۔ جب مہاتیر محمد نے 2016ء میں اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور 2018ء کے انتخابات میں شرکت کا اعلان کیا تو اس سے عوام کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مہاتیر محمد نے جس پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا وہ کبھی انتخاب میں نہ جیتی تھی تا ہم پارٹی نے مہاتیر محمد کو اپوزیشن اتحاد کا چیئرمین بنا دیا اور مہاتیر کی پرانی پارٹی اور سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کی پارٹی ہمیشہ اقتدار میں کامیابی حاصل کرتی چلی آ رہی تھی… اگرچہ مہاتیر کے بعد اس پارٹی میں جو بدعنوانی در آئی تھی اور اس نے ملائیشیا کی معیشت و سیاست اور معاشرت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ نجیب رزاق کی حکومت کے زیر انتظام ہی 2018ء انتخابات منعقد ہوئے۔ نجیب رزاق اور اس کی پارٹی نے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع استعمال کیے۔ ملک کے ہر شہر اور بستی میں چھوٹے بڑے ہر چوک میں نجیب رزاق کی کئی کئی میٹر لمبی اور چوڑی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ لوگوں کو طرح طرح کا لالچ دے کر بڑی بڑی ریلیوں کا انتظام کیا گیا اور نجیب رزاق کے حق میں نعرے لگوائے گئے۔ دوسری طرف نحیف و کمزور 92سالہ مہاتیر محمد تھا۔ جسے پورے ملک میں اپنی نئی پارٹی کا ایک بھی جھنڈا لہرانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اسی پر بس نہ کیا گیا بلکہ نجیب رزاق نے اپنے ہی محسن مہاتیر محمد پر طرح طرح کے جھوٹے مقدمات قائم کروا دیئے۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس آ دھمکی اور ملائیشیا کے محسن کو گرفتار کر کے لے گئی۔ یہ نیرنگی دوراں آپ کو تیسری دنیا کے مسلمان ممالک میں ہر جگہ مل جاتی ہے۔ جس طرح وطن عزیز میں میاں نواز شریف اپنے ہی محسنوں کے خلاف ’’علم بغاوت‘‘ بلند کیے ہوئے ہیں اور انہیں ’’خلائی مخلوق‘‘ کے لقب سے پکارتے ہوئے اُن کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ نجیب رزاق نے اپنے تئیں لوگوں کو پولنگ سٹیشنوں سے دور رکھنے کے لیے عام انتخاب کے لیے اختتام ہفتہ کا کوئی دن مقرر کرنے کی بجائے دوران ہفتہ کا دن یعنی 9نومبر بروز بدھ مقرر کیا۔ ان تمام پرویزی حیلوں کے باوجود عوام الناس جوق در جوق اور فوج در فوج چپ چپ آتے رہے اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر اپنے فرض کو انجام دیتے رہے۔ 9مئی ملائیشیا کے وقت کے مطابق شام کے پانچ بجے کو انتخابات کے نتائج میڈیا پر آغاز ہوا اور دیکھتے دیکھتے ہی سر جھکا کے ووٹ دینے والے سربلند ہو گئے۔ سرخرو ہو گئے۔ غرور، تکبر، رعونیت، بدعنوانی اور رشوت ستانی کا سر نیچا ہوا اور عاجزی و انکساری کو فتح نصیب ہوئی۔ ایک دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ مہاتیر محمد کے چاہنے والوں میں بڑوں کے علاوہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیش پیش تھے۔ پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ لوگوں کو اُن کا محبوب رہنما واپس مل گیا۔ تاریخ میں یہ حیرت ناک واقع کم ہی ہوا ہو گا کہ نوجوان جس قائد کے گن گاتے اور اس کے گرویدہ ہیں وہ 92برس کا ایک بوڑھا نحیف شخص ہے۔ مہاتیر محمد نے 22برس تک جو حکومت کی تھی وہ کیسی حکومت تھی جس حکومت کا رومانس ابھی تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ مہاتیر محمد کی حکومت ایک مثالی حکومتی تھی، ایک عوامی حکومت تھی، ایک فلاحی حکومت تھی، ایک غیر طبقاتی حکومت تھی، ایک قانونی حکومت تھی اور قانون کی حکمرانی والی اور عدل و انصاف کو یقینی بنانے والی حکومت تھی۔ مہاتیر محمد نے مسلمانوں کے اتحاد کے لیے بڑی جانفشانی سے کام کیا اور مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اسی لیے جب لوگ روزمرہ کاموں کے لیے دفاتر میں دھکے کھانے لگے اور قدم قدم پر پولیس شہریوں کا ناطقہ بند کرنے لگی تو پھر لوگوں نے مہاتیر محمد کو خاموشی سے ووٹ دیئے اور 9مئی کو ہی مکمل نتائج کا اعلان ہو گیا اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو 92سالہ مہاتیر محمد کی قیادت میں عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی اور اگلے ہی روز 10مئی بروز جمعرات انتقال اقتدار بھی ہو گیا اور ملائیشیا کے بادشاہ سلطان محمد خامس کے روبرو ملائیشیا کے روایتی لباس میں مہاتیر محمد نے حلف اٹھایا۔ مہاتیر محمد نے ثابت کیا کہ اگر تائید ایزدی شامل حال ہو اور عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو تو پھر مال و زر کی ضرورت ہوتی ہے نہ جلسے جلوسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی بڑے بڑے بینروں اور ٹی وی پروگراموں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اشتہار بازی کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ جب آپ لوگوں کے دلوں میں بستے ہوں تو پھر آپ کو مصنوعی ریلیوں اور جلسوں کی، جلسے سے پہلے گیارہ بجے حلوہ پوری، پھر 2بجے قورمہ اور بریانی کے لیے سینکڑوں بکرے اور درجنوں بیل ذبح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی صاحبزادی کی تاجپوشی کے لیے سو سو تولے کے تاجوں کے کسی گلیمر کا کوئی اہتمام اور انتظام کیا جاتا ہے۔ مہاتیر کی انتخابی مہم خوشبو کی طرح پھیلتی اور دلوں میں رچتی بستی چلی گئی۔ مہاتیر محمد نے انتخاب سے پہلے اپنی کئی غلطیوں سے بھی رجوع کیا ہے اور انگریزی محاورے کے مطابق اپنے کلہاڑوں کو دفن کرتے ہوئے اپنے سابق ڈپٹی پرائم منسٹر انور ابراہیم سے صلح کر لی۔ جسے انہوں نے 1998ء میں کچھ سیاسی اختلافات کی بناء پر نہ صرف معزول کر دیا تھا بلکہ ان پر کچھ اخلاقی الزامات لگا کر انہیں جیل بھی پہنچا دیا تھا۔ آج انور ابراہیم جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کا مرکزی رہنما ہے۔ مہاتیر نے انور ابراہیم کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ انہیں جیل سے رہائی کے لیے بادشاہ سے معافی دلوائے گا اور سیاسی مہم چلانے میں ان کی بھرپور مدد کرے گا اور انور ابراہیم کو وزیر اعظم ملائیشیا بنوائے گا۔ مہاتیر بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔ جہاں انہوں نے ملائیشیا کو جدید ترین ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا وہیں انہوں نے داخلی سکیورٹی ایکٹ بنوا کر شہری آ زادیاں سلب کر لی تھیں۔ اب ملائیشیا کے شہریوں کو یقین ہے کہ مہاتیر محمد ایک بارپھر پرامن، خوش حال اور بدعنوانی سے پاک ملائیشیا عوام کو لوٹائیں گے وہاں وہ پہلے والی آمرانہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ مہاتیر کی واپسی اک انجمن کی یعنی عوام کی واپسی ہے۔