آج جس موضوع پرخامہ فرسائی کر کے سعادت حاصل کرناچاہتاہوں اس کاعنوان ہے ’’شہدائے کشمیرکی کرامات اورمیں چشم دید گواہ ہوں‘‘ یہ کشمیرکے ان پاکباز شہدائے کرام کی کرامات کا تذکرہ ہے جو ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔یہ وہ عظیم سے عظیم ترنفوس ہیں کہ جنہوں نے اپنا آج ملت اسلامیہ کشمیر کے کل پر قربان کیا، جنہوں نے اپنی خواہشات اور خوابوں کو آنے والی نسلوں کی خواہشات اور خوابوں کے لیے تج دیا،مقتل میں آخری دم تک کھڑے رہے اور میدان کارزار میں دشمن ہندو بنیاکامردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سرخرو ہو کر رونق افروز جنت ہوئے۔یہ وہ پاکباز تھے کہ جو شہادت اور سعادت کے سفر میں بہت جلدی میں تھے اور اپنی منزلِ مراد پالی۔یہ عظیم لوگ شوق جنت‘ جذبۂ جہاد اور شہادت کی تڑپ کے اس اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ رب سے ملتجی ہوکراپنی منزلِ پاگئے۔ ہماری تحریکی یعنی ’’تحریک آزادی کشمیر‘‘ کا سرمایہ یہی شہداء کرام ہیں کیونکہ جس قوم کا دامن شہداء کی قربانیوں سے بھرا ہو اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت ہمیشہ مغلوب رکھ سکتی ہے اورنہ ہی شکست دے سکتی کیونکہ شہدائے کے ادھورے مشن کی تکمیل اس قوم وملت پرفرض ہوتی ہے۔ اس قوم کا موقف ہوتاہے کہ خونِ شہیداں‘ صبح آزادی کی نوید ہے۔ شہداء کشمیرکی کرامات کاایک طویل اورمقدس سلسلہ ہے جس کااحاطہ اخبارات،جرائدمیں شائع ہونے والے مختصر کالموں کی تنگ دامنی کے بجائے ایک ضخیم کتاب میں ہی ممکن ہوسکتاہے۔میری اس حوالے سے کوشش ہے اور رب العالمین مجھے ہمت دے کہ میں یہ سعادت حاصل کرپائوں۔لیکن اس عنوان پرلکھاجانے والایہ مختصرکالم ، کارواں میں شامل ایک شریک سفر کا آگے نکل جانے والوں کے لیے نذرانۂ عقیدت ہے تاکہ ان پاکباز شہداء کے کردار‘ قربانیوں اور جرأت سے پیچھے رہ جانے والے حوصلہ پائیں۔ اپنے ان محسنوں کے روشن تذکرہ لکھنے پر میرا قلم مسلسل متحرک رہے گا اور میں ان عطربیز یادوں سے اپنی محفلوں کو مشک بار کرتا رہوں گا۔ انشااللہ! یہ کشمیرکے وہ پاکبازنوجوان تھے جوذہنی اور فکری طور پرہندوبنیاکے ریاست جموں وکشمیرپرجابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کوتوڑنے کے لئے عملی جدوجہداوراس کے لئے اپنی متاع عزیزقربان کرنے پرآمادہ تھے۔ ان میں ایسے اولعزم کماندان بھی تھے کی جن کی جاذب‘ مقناطیسی اور ہمہ گیر شخصیات نے اس طرح جہاد کے متوالوں اور شہادت کے شیدائیوں کو اپنے اردگرد جمع کیا جیسے شبابِ شب میں ایک شمع تاریکیوں کی سہمناکی سے بے نیاز اور بے پرواہ ہو کر تنِ تنہاء جل کر پروانوں کو آدابِ سوختگی سکھاتی ہے۔انکی پراسرار‘ دلکش اور موثر شخصیات کی اثر اندازی کا یہ عالم تھا کہ سامع پر طلسم کی کیفیت چھا جاتی تھی۔بلاشبہ یہ روشنی کے مینارتھے کہ جو اتحادِملت کے قرآنی نظرئیے کو اپنی جدوجہد کا مقصد قرار دے کر ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کر کے اسے مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ ملانے اورپھر آلائے کلمہ الحق کے لئے ایک ہمہ گیرجدوجہد کواپنا ہدف اوراپنے مشن کا ناگزیر حصہ سمجھتے تھے۔ ہمت واستقلال کے پیکر اور سیماب صفت کشمیرکے یہ نوجوان آخری دم تک سیاہ روئے قابض بھارتی فوج کیلئے زوال وفنا کا سامان تیار کرنے میں مصروفِ عمل رہے۔ ان جانبازوں کی جب محفل سجتی تھی تواس میں سوائے اس کے اورکوئی گفتگونہیں ہوتی تھی کہ اسلامی معاشرت کاقیام اور اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنے کی فرضیت پرکل روزحساب ہمیں جوابدہی کاسامناہوگا اوراسلام بیزار تمدن‘ غیر اسلامی نظام اور بھارتی سامراج کے غاصبانہ تسلط کواکھاڑ پھینکنے پرہماری جدوجہداورہماری مساعی پر ہم سے پوچھاجائے گا۔قطع نظر اس سے کہ دشمن فوج کے مقابلے میں انکی تعدادکتنی ہے اوران کے آتشیں اسلحے کے مقابلے میں ان کے پاس کتنا اسلحہ ہے ،کیا مجال کہ دینی غیرت سے سرشار اور ہمالیہ سے بلند عزائم کے ان حاملین سے امید اور رجا کا دامن چھوٹ جاتا۔ انہوں نے شعوری طورپرقابض بھارت کے خلاف مسلح جہادکاجواصول اپنایا آخری سانس تک اسی اصول پرستی کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔اس بنیادی اصول اورسچے موقف کی بنیادپر ان میں پہاڑوں سے ٹکر لینے کی سکت تھی اور انجانی منزلوں کو سر کرنے کا وہ بھرپوراورکامل شعور رکھتے تھے۔ ملت اسلامیہ کے ان شیردل بہادر بیٹوںنے گزشتہ 30 برسوں کے دوران ایک ایسی لازوال تاریخ رقم کی ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ ان میں سے ہر کسی نے صاف اور اعلانیہ دشمن بھارت کی تحریک کے خلاف سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرناان جانبازوں کا شیوہ رہا ہے۔ کشمیرکی مسلح جدوجہد کو خالصتا اسلامی جہاد سمجھتے ہوئے مر مٹنا ان سرفروشوں کا مقصد حیات رہا ہے۔ برہمنی سامراج اورہندورام راج کی طرف سے پیدا کردہ متنوع آزمائشوں کا انہوں نے نہایت زندہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اسلامی موقف پر شدت سے کاربند رہ کر الحادی نظریات جیسے نیشنلزم‘ سیکولرازم اور برہمنی طرز کی جمہوریت کو پائوں تلے روندتے ہوئے اسلامیانِ کشمیر کی بیداری اور بحیثیت مسلمان ان کیلئے ان کا جائز مقام متعین کرنے میں جس بے باکی اور خودداری کے ساتھانہوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا وہ تاریخ میں آبِ زر سے رقم ہوگا۔ شہادت اورسعادت پانے کے بعد ان کی کرامات کالامتناہی سلسلہ دیکھاگیاہے اوریہ خاکسار بعد ازشہادت ان عظیم شہیدوں میں سے چندایک کی کرامات پرگواہ ہے ۔اس خاکسار نے اپنے علاقے میں ایک کھلی اوروسیع اراضی مزارشہداء کے نام کرادی جس میں سب سے پہلے جوشہیدعازم جنت ہوا،اس کا جسد اس طرح زخموں سے چورتھاکہ انگ انگ خون سے تربتر تھا،اس خاکسار نے ہزاروں لوگوںکے جم غفیر کی صف بندی میں اس شہیدکاجنازہ پڑھایا اور پھر اسکے جنازے کوکندھادیااس دوران اس خاکسار کے بشمول جس جس شخص کے کپڑوں پراس شہیدکے جسم سے ٹپکتاہوا کالہولگاتوسب کے سب جب اپنے اپنے گھرلوٹے توشہیدکے لہوکے دھبوں سے گلاب کی خوشبوآنے لگی ۔میں نے اپنے اس قمیص کوگھرکی الماری میں محفوظ کرلیاجس پر شہید کا لہو لگا تھا۔ اگلے دن کئی ایسے لوگ مجھے ملے کہ جنہوں نے اسی طرح کی کیفیت کاتذکرہ کیامیں نے ان سے بھی کہاکہ میری طرح ان کپڑوں کوسھنبالو،انہوں نے بھی ایساہی کر لیا، کئی ماہ تک گلاب کی یہ خوشبو ہمارے محفوظ شدہ کپڑوں سے مسلسل آتی رہی بالآخرکافورہوئی ۔ (جاری)