خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت،پاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ 1999ء کی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہاتوں کی سرکاری طور پر پیمائش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ میں ہی نہیں ہیں۔ اس لئے 2001ء کی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 47فیصد ہے اور بدھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھاری ابھی بھی پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اسلئے یہاں کی زمینوں و جائیداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمہ یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔ لداخ کو باقی دنیا سے ملانے والے دو راستہ سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھ ماہ کیلئے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اسکردو کے درمیان 192کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ ریٹائرڈ اسکول ٹیچر حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان یعنی دو اونٹ والے کوہان ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزئین کرکے اس کے متصل تین منزلہ میوزم بنایا۔ یہ عجائب گھر اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیاء کے درمیان تاریخی روابط کا شاہکار ہے۔ ترک ارغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس کی نذر کیا ہے۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کئے گئے۔ 17ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بدھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی۔ جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔ فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے کشمکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک ارغون غلام رسول گلوان کے نام سے موسوم ہے، جو ایڈونچر کے شوقین برطانوی سیاحوں کیلئے گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ 1892ء میں ایرل آف ڈیمور کی قیادت میں سیاحوں کے قافلہ کو جب و ہ گائیڈ کر رہے تھے ، تو یہ قافلہ برفانی طوفان میں گھر کر بھٹک گیا۔ اپنی کتاب’’ لداخ کی تہذیب و ثقافت ‘‘میں عبدالغنی شیخ میں لکھتے ہیں کہ گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی ، جس کو انہوں نے دریافت کیا تھا، گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ 16ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی سرویر جنرل والٹر لارنس اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ اسکو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اسکے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے اسنے ریکارڈ میں اس میدان کا نام دولت بیگ اولدی درج کردیا۔ افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اسکو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ عبدالغنی شیخ کے مطابق 1872ء کو ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزینڈر دوم کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے زار روس کو یقین دلایا کہ اس کے حملہ کی صورت میں سبھی ریاستوں کے والی برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرکے روسی فوج کا ساتھ دینگے۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنرکے توسل سے زار روس کو بھیجا گیا تھا۔ مگر فرغانہ میں اس خط کے مندرجات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئے ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجہ رنبیر سنگھ کی گوشمالی کرکے لداخ میں اپنا ایک مسقل نمائندہ مقرر کردیا۔ دیگر ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیر ممالک کے ساتھ سفارتی راہ رسم بڑھانے پر پابندی عائد کی گئی۔ شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد دو د سال تک آرام کرنے کے بعد وہ ہندوستان کا رخ کریگا۔ 1877ء میں روس نے ترکی کے خلاف محاذ کھولا،جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹینگرو ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے۔مگر زار کا استنبول تک پہنچنا بس خواب ہی رہ گیا۔ لداخ کے پہاڑوںکے پیچ و خم سے بل کھاتے ہوئے دریائے سندھ اور اسکے معاون ندی نالوں سے پچھلی ایک صدی کے دوران کافی پانی بہہ چکا ہے۔ خطے میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی الفت نہیں رہی۔ مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدر ے مشترک ہیں۔ پوری آبادی اب ایک الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گذارنے سے عاجز آچکی ہے۔ جب لداخ کو کشمیر سے الگ کیا گیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کیلئے بھیجا گیا، تو تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ زور زبردستی سے ان کو اس مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے کیڈر میں شامل کیا گیا۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوج نقطہ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ خط ایک بار پھر تجارت ، روابط اور تہذیبوں کے ملن کا مرکزبن سکے۔ اس کیلئے اشد ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پر امن حل تلاش کیا جائے تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔ (ختم شد)