خواب ہو گا یا کوئی خواب کے جیسا ہوگا ہم نے دیکھا تھا جسے آنکھ کا دھوکہ ہو گا اتنا لکھوں گا ترے بعد ترے بارے میں آنے والوں نے تجھے پہلے ہی دیکھا ہوگا خواب‘ سراب‘ شباب‘ حباب اور سماب سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ آنکھ کا دھوکہ یا فریب نظر۔ جسے آپ سب سے زیادہ ایماندار سمجھتے ہیں‘ بعض اوقات اس کی ایمانداری آپ کو لے بیٹھتی ہے۔ نالائقی اور نااہلی سب کچھ ہی بلڈوز کر دیتی ہے۔ میں کوئی مافوق الفطرت بات نہیں کر رہا۔ یہی زمینی حقائق ہیں۔ وہی زمین جس پر دوپائے اور چارپائے چلتے ہیں اور بعض اوقات ان میں پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ آپ یقین کیجئے ہر طرف دھند ہے۔ باتوں کی دھند‘ خیالات کی دھند‘ الزامات کی دھند اور حالات کی دھند نظر سے آگے کچھ نہیں آتا۔ بلکہ اپنی ناک تک اس میں کسی کو نظر نہیں آتی: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے‘ اخباروں کی پیشانیاں سیاہ نظر آتی ہیں کہ ان پر خبریں ہی ایسی ہیں کہ ہر خبر پر دم نکلتا ہے۔ ملائیشیا میں پی آئی اے کا طیارہ ضبط‘ یااللہ خیر۔ علی الصبح یہ کیسی سیاہ رنگ سرخی یعنی سیاہی مائل سرخی۔ پتہ چلتا ہے کہ بوئنگ 777 طیارہ ویت نام کی کمپنی سے 2015ء میں لیز پرلیا تھا۔ واجبات ادا نہیں کئے تھے۔ مسافر بے چارے رل گئے اور وطن کی کیسی سبکی ہوئی۔ ہم نے یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ نجیب احمد نے یہی تو کہا ہے: ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے ریکوڈک کا کیس بھی ہم ہار گئے۔ ہم تو بس بدقسمت ہیں کہ ہم نے بے بہا پیسے لگائے تو ہمارے ہاتھ سمندر سے بھی کچھ نہ ملا۔ تیل ندارد۔ چنیوٹ سے بھی اربوں روپے کی دھاتیں نکلنا تھیں‘ سب خواب اور سراب۔ حکومت نے پٹرول حملہ دو مرتبہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سوا تین روپے فی لٹر پٹرول مہنگا کردیا ہے۔ بجلی کے شاکس وہ عوام کو پہلے ہی لگا چکے ہیں۔ پھر ڈرامہ کرتے ہیں کہ اوگرا والے تو 13 روپے بڑھا رہے تھے۔ خان صاحب نے 10 روپے کی رعایت کردی۔ خوشیاں منائو اور عیش کرو۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ سب کچھ کسی ایجنڈا کے تحت ہورہا ہے کہ ملک کو اپاہج کردیا جائے۔ صحت اور تعلیم کے ادارے پہلے ہی برباد کردیئے گئے ہیں۔ ہماری نئی نسل تباہ ہورہی ہے۔ یہ بتدریج سکول کھولنے کی بات مضحکہ خیز۔ یہ بتدریج بربادی کی بات ہے۔ بچوں کا ٹیمپو ٹوٹ چکا ہے۔ باقی سب کام رواں دواں ہیں۔ صرف تعلیمی ادارے آخر کیوں بند کر رکھے ہیں۔ آپ سازش کوسمجھنے کی کوشش کریں۔ : سعد لہجے میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا آپ فارن فنڈنگ کیس ہی کو دیکھ لیں کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ کیس کمبل بن گیا ہے۔ اکبر اویس بابر کی آواز جوکہ صدا بصحرا لگتی تھی ہر جگہ سنائی دینے لگی ہے اور وہ چونکہ پی ٹی آئی کے فائونڈر ممبر ہی نہیں خان صاحب کے دست راست تھے وہ پورے اعتماد کے ساتھ چھ سال سے کیس لے کر چل رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ اپوزیشن نے بھی پکڑ لیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کی تمام وضاحتوں کے باوجود اپنے پورے مضمرات کے ساتھ سامنے آ چکا ہے۔ آپ مولانا فضل الرحمن کی بات کو فی الحال چھوڑ دیں کہ فنڈنگ کرنے والوں میں اسرائیل اور بھارت بھی ہیں مگر کوئی فنڈنگ سامنے آنا ضروری ہے: غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے اچھے لوگ آپ کو چھوڑ گئے یا آپ نے اچھے لوگوں کو نظر انداز کیا۔ اب ایک مرتبہ پھر لوگ آپ کہ چھوڑ رہے ہیں۔ ندیم افضل چن کا استعفی جو آپ نے قبول کیا ہے‘ اس کا پس منظر سب کے سامنے ہے کہ آپ خرابی بسار کے بعد وہی کہیں گئے جو ندیم افضل چن کہہ رہے تھے وہ تو سرخرور ہوئے مگر: اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر کیا خان صاحب کے پسندیدہ طارق جمیل کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو حکومت بے وقوف لوگوں کو دے دیتا ہے۔ کیسی کسی بوعجبیاں سامنے آئی ہیں۔ لوگ بھی بڑے ستم ظریف ہیں۔ سب کچھ سمجھتے اور جانتے ہیں۔ ٹریجڈی سے بھی مزاح پیدا کرتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کے مذاق مزہ دیتے ہیں۔ اس مکدر اور بے کلی کے عالم میں بھی سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ گدی گدی کر جاتی ہے۔ کسی نے لکھا ہے کہ اب طیارے پر یہ لکھنے کا فیصلہ ہوا ہے کہ ’’خیر نال آ تے خیر نال جا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ اب کچھ مزید لکھنے کا یارا نہیں۔ پھر لکھنا بے سود ہی تو ہے۔ سب لوگ کہتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور روز پڑھتے ہیں۔ جن لوگوں کو پڑھنا چاہیے وہ نہیں پڑھتے کہ وہ تو ہمیں پڑھاتے ہیں۔ وہ تو سارا دن بہت کچھ سنتے ہیں اور رات کو اپنے بارے میں بہت کچھ دیکھتے بھی ہیں۔ شاید وہ اس سب کچھ کے عادی ہو چکے ہیں۔ اصل میں ان کا انحصار ہی ایسی زندگی پر ہے جس میں سیدھا رستہ ہے ہی نہیں۔ سب وہی ہیں جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ: جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے کیا کریں دھند اور زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ موسم کچھ آگے چلے گئے ہیں۔ ایسے کہ جیسے دسمبر جنوری میں آ چکا ہے۔ ہر چیز آگے کی طرف جا رہی ہے۔ قدرت کو یہ تغیر معلوم ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں‘ واقعی ہم کیا کرسکتے ہیں؟