سینٹ انتخابات کا کھیل روز بروز دلچسپ ہوتا جا رہا ہے‘ اپوزیشن کی اُمیدیں بڑھ رہی ہیں اور حکمران ٹولے کی پریشانی دیدنی‘ سینٹ کے سابقہ انتخابات سے قبل بلوچستان حکومت کی رخصتی اور چیئرمین سینٹ کے طور پر صادق سنجرانی کی کامیابی نے ایوان بالا کو عوامی دلچسپی کا محور بنایا ورنہ 1973ء سے 2018ء تک سینٹ کے انتخابات بھی خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح محض اعداد و شمار کا کھیل ہوتے تھے‘ فلاں جماعت کے فلاں اسمبلی میں اتنے ارکان اسمبلی ہیں‘ سو اتنی نشستیں یقینی‘کسی جماعت یا اُمیدوار کا اضافی نشست لے جانا بہتر لین دین یا کامیاب جوڑ توڑ کا نتیجہ مانا جاتا‘ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی یا اپوزیشن کے لئے تبدیلی کا مژدہ نہیں‘ اس بار مگر سینٹ کے الیکشن کو حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے دوررس تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھ رہی ہیں‘ کامیابی کے دعوے دونوں کر رہی ہیں اور ناکامی کا خوف دونوں کی حکمت عملی سے عیاں‘ حکومت اور اپوزیشن تو خیر معاملے کی فریق ہیں حیرت میڈیا پر ہے جس نے سینٹ انتخاب کو پانی پت کی لڑائی بنا دیا ہے اور اپنے اپنے انداز میں دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ تین چار ہفتے پہلے تک اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے اجتماعی استعفوں‘ لانگ مارچ اور دھرنے کے آپشن پرغور کر رہی تھی‘ میاں نواز شریف‘ مریم نواز ‘بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے بیانات سن کر لگتا تھا کہ ’’عمران خان‘‘ کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا‘ مگر آصف علی زرداری نے معلوم نہیں پوری پی ڈی ایم اور مسلم لیگ(ن) پر کیا جادو کیا کہ سب کے سب استعفوں کو بھول کر سینٹ الیکشن کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور حفیظ شیخ کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وفاقی نشست سے پی ڈی ایم کا اُمیدوار نامزد کر دیا‘ مخدوم صاحب کی پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سے وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے‘ زرداری کے سوئس اکائونٹس میں پڑے ڈالر بچانے کے لئے گیلانی صاحب نے وزارت عظمیٰ کی قربانی دی‘ اپنے حلف کے تقاضوں کو فراموش کیا اور قبائلی عہد کی شخصی وفاداری کی یاد تازہ کی ؎ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑوبرہمن کو بعض دوستوں کو وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے شخص کے سینٹ کا امیدوار بننے پر حیرت ہے مگر وہ ہمارے الیکٹ ایبلز اورجاگیرداروں ‘مخدوموں‘ وڈیروںکے مزاج سے واقف نہیں‘ یوسف رضا گیلانی پہلے شخص نہیں جو بالاتر منصب چھوڑنے کے بعد کمتر عہدے کے حصول کے لئے کوشاں ہیں‘ ماضی میں کئی وزیر اعلیٰ اور صدر اس پستی کا مظاہرہ کر چکے ہیں‘ جام آف لسبیلہ میر جام غلام قادر بلوچستان کے بااختیار وزیر اعلیٰ اور میر رسول بخش تالپور سندھ کے گورنر رہے مگر بعدازاں انہوں نے صوبائی وزیر کا عہدہ قبول کیا‘ آصف علی زرداری 2013ء تک ملک کے صد رتھے‘ اب قومی اسمبلی کے عام رکن ہیں جبکہ سردار فاروق احمد خان لغاری بھی ملک کے بااختیار صدر رہنے کے بعد 2002ء میں رکن اسمبلی بنے۔ جب ایک دوست نے انہیں یاد دلایا کہ وہ ملک کے صدر رہ چکے ہیں ‘آپ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے اپنے پوتوں‘ نواسوں کے ساتھ زندگی انجوائے کریں‘ شکار کھیلیں‘ مطالعہ کے آپ شوقین ہیں‘ کتابیں پڑھیں‘ یادداشتیں لکھیں اور اللہ اللہ کریں تو لغاری سردار نے جواب دیا ’’آپ حلقہ جاتی سیاست کے تقاضوں سے واقف نہیں‘ میں اسمبلی سے باہر رہنا ایفورڈ نہیں کرتا‘ ‘بدقسمتی یہ ہے کہ جس میاں نواز شریف نے سردار فاروق لغاری کو بے آبرو کرکے ایوان صدر سے نکالا اُن کے جانشین سردار اویس لغاری اسی نواز شریف کی پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل ہیں ع حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے گیلانی صاحب کو وفاقی نشست سے سینٹ کا امیدوار نامزد کر کے زرداری نے پی ڈی ایم کو چکمہ یہ دیا ہے کہ وہ اپنے رابطے‘ مالی وسائل اور جوڑ توڑ کی غیر معمولی صلاحیت بروئے لا کر ان کی کامیابی کو یقینی بنائیں گے‘ جو عمران خان پر ارکان قومی اسمبلی کا عدم اعتماد ہو گا اور اداروں کی غیر جانبداری کا مُنہ بولتا ثبوت۔ یوں حکومت سے چھٹکارے کے لئے اجتماعی استعفوں کی نوبت آئے گی نہ لانگ مارچ اور دھرنے کی ضرورت پڑے گی۔ ع ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کہنے کو تو سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ‘ پاکستان میں ہر بات ممکن ہے‘ مگر آثار بہرحال یہی ہیں کہ گیلانی صاحب ‘حفیظ شیخ کو ہرانے کی حسرت دل میں بسائے 3مارچ کی شام بے نیل و مرام ہی واپس لوٹیں گے کہ موجودہ وزیر خزانہ کو کسی اور سے زیادہ صدر آصف علی زرداری اور گیلانی صاحب جانتے ہیں۔ حفیظ شیخ ہارنے کے لئے نہیں جیتنے کے لئے الیکشن لڑ رہے ہیں اور یہ عمران خان سے زیادہ کسی اور کی پسند ہیں۔1985ء کے انتخابات کے بعد سینٹ کے انتخابات کرانے کی ضرورت پڑی تو جنرل ضیاء الحق کی خواہش تھی کہ ہفت زبان وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں بھی سینیٹر بن جائیں تاکہ آئین بحال ہونے کے بعد وہ جونیجو حکومت میں وزارتی منصب برقرار رکھ سکیں۔ صاحبزادہ صاحب نے سینٹ کا الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا کہ ارکان اسمبلی سے ووٹ مانگنا ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ صدر ضیاء الحق نے صاحبزادہ صاحب سے کہا‘ بجا لیکن کیا نامزدگی کے کاغذات پر دستخط کرنا بھی آپ کو گراں گزرے گا‘ صاحبزادہ صاحب نے تمکنت سے کہا نہیں یہ تو میں کر سکتا ہوں‘ چنانچہ صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں کاغذات نامزدگی پیش کئے گئے‘ آپ نے دستخط فرمائے‘ جنرل ضیاء الحق نے جملہ ارکان اسمبلی کو غالباً آرمی ہائوس میں طلب فرمایا‘ صاحبزادہ کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ارکان اسمبلی سے کہا کہ میری درخواست کو شرف قبولیت بخش کر صاحبزادہ نے سینٹ کا امیدوار بننا‘ اس مجلس میں بیٹھنا قبول فرمایا۔اب ووٹ دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ حفیظ شیخ کی یہ مہربانی کیا کم ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی ملازمت چھوڑ کر معیشت درست کرنے پاکستان تشریف لائے اور اب عمران خان کی خصوصی درخواست پر سینٹ کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کا کون سا کم نصیب رکن اس جوہر یکتا کو ووٹ دینے سے انکار کرے گا؟جس کے پاس خزانے کی کنجی ہے اور جو سینٹ کی رکنیت کے بغیر بھی بااختیار مشیر خزانہ رہ چکا ہے۔بعض دوست گیلانی صاحب کی کامیابی کے لئے جہانگیر ترین کی مخدوم احمد محمود سے رشتے داروں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے مگر آج جہانگیر ترین نے بھی حفیظ شیخ کی حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ عمران خان سے جہانگیر ترین کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ ترین کی طرح جنوبی پنجاب کے ارکان سے گیلانی صاحب کی توقعات کا بھرم 3مارچ کو کھل جائے گا۔ البتہ اگر حفیظ شیخ کے سر سے دست شفقت اٹھ چکا ہے تو دوسری بات ہے‘ پھر عمران خان کس باغ کی مولی ہیں۔ مجھے مگر یہی لگتا ہے کہ اپوزیشن اونٹ کا ہونٹ گرنے کی آس میں سرگرداں ہے اور اس کے ہمنوا تجزیہ کار بھی ؎ منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید نا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے