ارشد نے درس نظامی کا کورس پورا پڑھا ہے۔ ایک بڑے مدرسہ میں اس نے آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزارا۔ پھر فارغ التحصیل ہوا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں اس کی باقاعدہ دستار بندی ہوئی۔ ثقہ متشرع صورت کے ساتھ اب وہ مولانا کہلاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اسے ایک مسجدمیں خطابت بھی مل گئی۔ وہ ایک موثر وعظ کرنے والا سنجیدہ عالم دین ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم کرے جہاں دینی تعلیم دلانے کے شائقین اپنے بچوں کو داخل کرا سکیں! ارشد کی امی جان کو اس کی شادی کی فکر ہے وہ اپنے بھائی کی بیٹی‘ یعنی بھتیجی کو‘ بہو بنا کر لانا چاہتی ہیں۔ ارشد کو یہ رشتہ منظور نہیں! اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ماموں کو پسند نہیں کرتا یا دونوں خاندانوں میں کوئی نزاع ہے۔ رکاوٹ یہ ہے کہ ماموں کی بیٹی انگریزی میڈیم کے ایک مشہورسکول سسٹم سے پڑھی۔ اس نے او لیول کیا۔ پھر اے لیول کا امتحان پاس کیا۔ پھر اس نے لاہور کی اس مشہور یونیورسٹی سے ایم بی اے کا امتحان پاس کیا جو بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت یافتہ ہے۔ ابھی فائنل کا نتیجہ بھی نہیں آیا تھا کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اسے ملازمت مل گئی۔ کمپنی نے اسے جی ایم کا منصب پیش کیا۔ گاڑی بھی مہیا کی ہے۔ اس کی پروموشن اور پھر دوسرے ملکوں میں تعیناتی کے امکانات روشن ہیں۔ ارشد کو یہ رشتہ منظورنہیں۔ ماموں کی بیٹی صوم و صلٰوۃ کی پابند ہے مگر جس شرعی پردے میں ارشد اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے ماموں کی بیٹی نہیں کرتی۔ لڑکے کو لڑکی کی ملازمت بھی پسند نہیں۔ وہ ایک ایسی لڑکی سے بیاہ کرنے کا متمنی ہے جو حافظہ ہو عالمہ ہو۔ شرعی پردہ کرتی ہو اور ہائوس وائف ہو۔ کیا لڑکی ارشد کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا پسند کرے گی؟ نہیں! اُسے بھی اس ماحول میں گھٹن محسوس ہو گی! وہ ملازمت نہیں کر سکے گی نہ ہی اپنی سہیلیوں اور اس ماحول سے تعلق نباہ سکے گی۔ جس میں اس کی پرورش ہوئی۔ آپ غور کیجیے تو یہ دو گانگی(dichotomy)ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر نظر آئے گی۔ یہ دو طبقات ہیں جو ایک دوسرے سے کہیں بھی نہیں ملتے۔ ان کا نظام تعلیم‘ ان کی معاشرت‘ ان کا لباس‘ ان کا ماحول ‘ ان کی ملازمتوں کا ڈھانچہ‘ ان کے بچوں کے انداز‘ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کے باہمی رشتے بہت کم ہوتے ہیں۔ نہ ہونے کے برابر! یہاں تک کہ ان کے مطالعہ کے حوالے سے بھی مختلف ہیں۔ خبارات و جرائد بھی الگ الگ ہیں۔ دوستیاں جن حلقوں پر مشتمل ہیں۔ وہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ حکومت کو چلتا کرتا ہے یا نہیں‘ مگر معاشرے کی اس تقسیم کو واضح تر اور قوی تر ضرور کرے گا۔ مسٹر اورمولانا پہلے ہی دو الگ الگ کیمپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اب یہ کیمپ ایک دوسرے کے سامنے بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ اس سے مراد یہ نہیںکہ مولانائوں کے اس مارچ پر مسٹر لوگ ہلّہ بول دیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں شامل نہ ہوکر‘ اس کی مخالفت میں دلائل دے کر‘ وہ اپنے تئیں اس کا مقابلہ کریں گے! المیے کا تاریک تر پہلو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن‘ دیو بند مسلک کی سو فیصد نمائندگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ زبانی نہیں! تاہم عملاً بھر پور کیا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس مسلک سے وابستہ جو مشہور علمائ‘ مولانا کا ساتھ نہیں دے رہے‘ وہ خاموش ہیں اور مکمل طورپر خاموش ہیں! یہ کہنا کہ مولانا طارق جمیل سیاست میں دخیل ہیں یا کسی نے انہیں سیاست میں دھکیلا ہے۔ واقعاتی طور پرثابت نہیں ہوتا۔ انہوں نے عمران خان کی بطور فرد حمایت کی ہے۔ تحریک انصاف کی یا حکومتِ وقت کی حمایت قطعاً نہیں کی! مولانا طارق جمیل اگر سیاست میں ہوتے تو اپنے لاکھوں کروڑوں معتقدین کو آزادی مارچ یا دھرنے میں شامل ہونے سے کھلم کھلا منع کرتے۔ ان کا سیاست یا سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق ہے نہ لینا دینا! اسی طرح مولانا رفیع عثمانی اور مولانا جسٹس تقی عثمانی بھی خاموش ہیں۔ وہ اس مارچ اور دھرنے میں شامل نہیں مگر اس کی مخالفت میں بھی کچھ نہیں کہا۔ یوں ہمارا یہ موقف کہ مولانا فضل الرحمن عملاً پورے مسلک کی نمائندگی کر رہے ہیں‘ درست ثابت ہوتا ہے! یہ مارچ اور دھرنا ایک طرف تو مسٹر اور مولانا کی تقسیم واضح کر رہا ہے۔ دوسری طرف مسلکی اختلاف کو ہوا دے رہا ہے۔ اس میں شیعہ‘ بریلوی اور اہل حدیث مدارس کے طلبہ نہیں شرکت کر رہے! ہاں ! اس سے ایک خطرناک نظیر ضرور قائم ہورہی ہے کل کو بریلوی یا شیعہ مسلک‘ اپنے کسی مطالبے کو منوانے کے لئے اپنے اپنے مدارس کے لاکھوں طلبہ کو دارالحکومت میں جمع کر کے دھرنا دے سکتا ہے۔ یہ سلسلہ چل پڑا تو اسے روکنا ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہو جائے گا! مولانا فضل الرحمن کے دلائل کا جائزہ لیں تو ان کی کوئی ایک دلیل بھی مضبوط بنیاد نہیں رکھتی۔ پشاور میں علماء کے نمائندہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دو دعوے کیے۔ اول یہ کہ وہ مدارس کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ مدارس پر حملہ کس نے کیا ہے؟ اگر مدارس کے دفاع کی ضرورت آن پڑی ہے تو مولانا مفتی نعیم سے لے کر مولانا حنیف جالندھری تک سب خاموش کیوں ہیں؟ یہ خطرہ جناب مفتی منیب الرحمن کو کیوں نہیں نظر آ رہا؟ کیا یہ حملہ صرف ان مدارس پر ہوا ہے جن کی ہمدردیاں مولانا کو حاصل ہیں؟ کیا کسی نے کسی مدرسہ میں نقب لگائی ہے؟ کیا اساتذہ اور طلبہ کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟ کیا راتوں رات کسی نے مولانا کے حامی مدارس کا نصاب تبدیل کر دیا؟ وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کس خطرے سے دفاع کی بات کر رہے ہیں۔ دوسرا دعویٰ اس سے بھی زیادہ مزاحیہ ہے۔ ’’آئین اور اس کی اسلامی شقوں کے تحفظ کی جنگ لڑنا ہمارا مذہبی کارڈ ہے تو آئین کے تحفظ کی جنگ ہم ضرور لڑیں گے؟‘‘ آئین کی کس اسلامی شق کو خطرہ لاحق ہے؟ کیا وہ آئین کی کتاب سامنے رکھ کر شق کا نمبر بتا سکتے ہیں؟ یہ کیا خطرہ ہے کہ مولانا کے علاوہ کسی کو نظر نہیں آ رہا؟ مولانا کے صاحبزادے پارلیمنٹ کے رکن ہیں’ وہی ارکان پارلیمنٹ کو بتا دیتے کہ کون کون سی شق سیلاب میں ڈوب رہی ہے اور آئین پر کون سی افتاد آن پڑی ہے؟ اصل سبب یہ ہے کہ جب سے مولانا الیکشن میں ہارے ہیں وہ صدمے سے باہر نہیں آ پا رہے۔ وہ شکست سے ذہنی سمجھوتہ کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا اور ہمیشہ اس کا ذکر حقارت سے کیا۔ بقول شورش کاشمیری ؎ یار لوگوں کو شکایت تھی کہ نافرمان لوگ خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ؟ زاغ کی اولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے؟ نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے؟ انہونی یہ ہوئی کہ جس پارٹی کو مولانا درخورِ اعتنا ہی نہیں گرادانتے تھے اس کے ’’چھوکروں‘‘ نے انہیں پارلیمنٹ سے باہر نکال دیا۔ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اگر مہنگائی نہ ہوتی‘ اگر تحریک انصاف کی حکومت کامرانی کے زینے پر اُوپر چڑھ رہی ہوتی۔ تب بھی مولانا نے یہی کچھ کرنا تھا۔ آئین کی اسلامی شقوں اور مدارس کو خطرہ تب بھی لاحق ہوتا۔