کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اسکے مفادات کے حصول کے تابع ہوتی ہے۔مفادات کی تبدیلی خارجہ پالیسی کی سمت میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے بلکہ پاکستان بھی عالمی سیاست کے مروجہ اصولوں کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیتا رہتا ہے تاکہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکے۔بین الاقوامی سیاست میں تقریباً ایک دہائی کی ہلچل کے بعد نئی صف بندی ہو رہی ہے اور ماضی کی پیشین گوئی کے مطابق عالمی سیاست میں براعظم ایشیا کو خصوصی اہمیت حاصل ہوچکی ہے اور ایشیا عالمی سیاست کا محور بن چکا ہے۔ ان جغرافیائی سیاسی پیشرفتوں پر غور کرتے ہوئے ، وزیر اعظم کے خدشات درست ہیں ، اور وزیر اعظم عمران خان نے ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں کو ترک نہیں کرے گا اور جنگ کا ساتھی بننے کی بجائے امن کا ساتھی بننے کو ترجیح دیگا۔ خارجہ پالیسی کے تمام فیصلوں کی رہنمائی کرنے کا یہی منتر ہونا چاہئے۔ چاہے وہ سعودی عرب اورایران کے مابین تنازعہ ہو یا خارجہ پالیسی کے دیگر ایشوز؟ پاکستان کو غیرجانبداری برقرار رکھنا چاہئے اور عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق پلیسی اختیار کرنا چاہئے۔ پاکستان نے 2015 میں یمن کی جنگ میں شامل نہ ہوکر صحیح کام کیا ، حالانکہ اس فیصلے نے ہمارے بہت سارے "عرب بھائیوں" کو ناراض کردیا تھا۔ اس وقت بھی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانشمندی نے پاکستان کو ایک اور دلدل میں پھنسنے سے بچایا تھا۔اور اب بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور نئی سمت کے تعین میں قومی سلامتی کے اداروں سمیت پارلیمنٹ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اِس ضمن میں قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے "پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی" (جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹیرین شامل تھے) کو گزشتہ ہفتے دی گئی اِن کیمرہ بریفنگ ایک بہترین عمل ہے کیونکہ جمہوری عمل کے ذریعے ہی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے تمام ایشوز کو دانشمندانہ اور انصاف پسندانہ انداز میں طے کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک دانشمندانہ اپروچ اورفیصلہ سازی کے لیے صحیح سمت میں ایک درست قدم ہے۔ بظاہر، پی ٹی آئی کی حکومت نے ہندوستان ، امریکہ ، یورپ ، چین اور افغانستان کے بارے میں جو موقف اٹھایا ہے وہ مثالی پرستی کی بجائے حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔ اور حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کسی سیاسی یا اخلاقی مہم جوئی کا شکار ہوئے بغیر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کریں۔ مثال کے طور پر اپنے عرب بھائیوں سے یہ توقع رکھنا کہ ہماری معاشی اور سیاسی مشکلات میں وہ ھمارا اسی طرح ساتھ دیں جس طرح کا تعاون انہوں نے 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے موقع پر کیا تھا حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو عالمی سیاسی نظام میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔دوسری یہ کہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو داخلی اور خارجی محازوں پر بہت سے چیلینجز کا سامنا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان اپنا وزن صرف ایران کے پلڑے میں بھی نہیں ڈال سکتا جبکہ ماضی کی طرح،عرب دنیا اور ایران کے مابین پاکستان برابری کے فاصلے کی بنیاد پر ایک متوازن اور غیر جانبدار تعلق برقرار رکھ سکتا ہے۔ پاکستان ہمسایہ ہونیکی بنیاد پر ایران کو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرستا چاہے سعودی عرب اور ایران کے مابین اختلافات ہوں یا امریکہ اور ایران تنازع ہو۔ اِسی طرح یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا معاملہ ہو تو بھی پاکستان کو اپنے قومی مفادات کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے اگرچہ اقتصادی طور پر ترقی یافتہ یورپی ممالک کے تعاون کی ہمیں ضرورت ہے اور یورپی ممالک کی طرف سے دی گئی "توسیعی رعایت" کی سہولت ایک پرکشش عنصر ہے مگر صرف تجارتی مفادات کے حصول کے لیے ہمیں اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یورپی پارلیمنٹ ہم سے توسیعی رعایت کے بدلے توہین رسالت کے قوانین کو تبدیل کرنے کے لئے کہہ رہی ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کا نکتہ نظر قابلِ تحسین ہے کہ مغربی ممالک کو اسلامو فوبیا کی روک تھام کرنا چاہئے اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے بارے میں جزبات کا احترام کرنا چایئے اور اس معاملے کے مستقل حل کے لیے مسلم ممالک اور مغربی دنیا کے مابین ایک جامع ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ خارجی محاذ پر پاکستان کے لیے تیسرا اور سب سے اہم چیلینج امریکہ کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے۔امریکہ اور چین کی باہمی مخاصمت اور تجارتی جنگ کے تناظر میں بھی پاکستان کو انتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جس میں کسی ایک ملک کے ساتھ بہتر تعلقات دوسرے ملک سے مکمل دوری کی قیمت پر قائم نہیں کیے جاسکتے۔ امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کے معاملے میں بھی پاکستان کو کسی سیاسی یا اخلاقی مہم جوئی کا شکار ہوئے بغیر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ البتہ پاکستان اور چین کے سات دہائیوں پر مشتمل "دیرینہ اور سٹریٹجک تعلقات" کا متبادل تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ برابری کی بنیاد پر نہیں تو قابل احترام بنیادوں پر امریکہ کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے۔ ہمیشہ سے پاکستان کا یہ بنیادی اصراربھی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اِسے ہندوستان کے مقابلے میں برابری کی سطح کا برتاؤ چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا زیادہ تعلق افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد کی صورتحال سے ہے جبکہ امریکی فوج کے انخلا کی موجودہ رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مقررہ تاریخ سے پہلے مکمل ہو جائیگا۔ لہٰذا پاکستان کو اِس معاملے میں پیشگی بندوبست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں پیدا ہونیوالی کسی بھی قسم کے انتشار اور غیریقینی صورتحال سے پاکستان کو بچایا جا سکے۔