میں عورت ہوں جوماں بنے تو پیروں تلے جنت، بیٹی ہو تو جنت کی ضمانت، بہن ہو تو غیرت اور اگر بیوی ہو تو عزت ہوں، مگر آجکل میرے حالات کی وجہ سے کچھ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں ،وہ لوگ شاید میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں وہ نہیں جانتے کہ آدم کو کھنکھناتی مٹی سے تخلیق کیا گیا پھر اسکی جبین میں صفات خداوندی رکھیں اور اس پتلے کو علم کی دولت سے نوازا گیا، پھر اس صاحب علم سے مجھے پیدا کیا گیا اسکے دل کے نہایت قریب سے۔ اسی قرب کا وسیلہ مجھے عشق ملا میں ہی تو مرد کے دل کی محافظ ہوں اور یہی وصف مجھے عاشق بناتا ہے دوسرے الفاظ میں میں پیدائشی عاشق ہوں کہتے ہیں کہ عاشق آزاد ہوتے ہیں لیکن بہت پہلے ہی میری مرضی میری منشا کو کچلا جانے لگا اور مجھے کوئی اپنے مطابق چلانے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ تب کی بات ہے جب قابیل نے اپنی ہوس اور خواہش کی تکمیل کے لیے ہابیل کو قتل کیا اور مقصد میری ذات کا حصول بتایا جبکہ اس سب میں میری رضا شامل نہیں تھی تبھی سے انسانیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ کمزور جو کہ اولاد قابیل ہے اسکو میری ذات سے نہیں اپنے آپ سے غرض ہے جبکہ دوسرا اولاد شیث جسکے لیے میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں۔ وہ جانتا ہے میں حاجرہ آسیہ اور زلیخاں ہوں جو ماں بنی تو زم زم تحفے میں ملا میرا عشق ہی تھا کہ یوسف بازار مصرکی رونق بنا ،میں مریم ہوں جس نے عیسیٰ کو جنم دیا، ہر دور میں میرا ہر روپ اپنی مثال آپ ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جب جب اولاد قابیل نے غالب آنے کی کوشش کی میرے بطن سے ایسی ہستیوں نے جنم لیا کہ تاریخ انکے ہونے پہ نازاں ہے۔ مجھے میرے ہونے کی اصل پہچان محمدﷺ نے دی جب میں آمنہؓ خدیجہؓ عائشہ ؓاور فاطمہؓ بنی تب میری حرمت اتنی تھی کہ سورج کی بھی جرات نہ تھی کے مجھے بے سروپا دیکھے۔ میری خوبصورتی میرا سنگھار اور میرا وجود میرے محرم کے سپرد کر کے اسلام نے مجھے نہ صرف ہر ایرے غیرے کی پہنچ سے کوسوں دور کیا بلکہ میرے محافظوں کو میری ضروریات پوری کرنے کا حکم دے کر مجھے گھر کی ملکہ بنایا اور فطرت نے مجھے سجنے سنورنے کی حس عطا کر کے میرے محرم کو میرا گرویدہ بنا ڈالا۔ مگر وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا پھر ہوا یوں کہ دنیا ترقی کرنے لگی وقت نے میرے اندر چھپے مادیت پرستی کے بیج کی نشاندہی کر دی اور میں نے پوری ایمانداری سے اسکو پالنا پوسنا شروع کر دیا پھر مجھ سے قناعت نہ ہوتی تھی نہ دولت پہ نہ شکل و صورت پہ اور رشتوں پہ۔ اور تبھی بھرپور فائدہ اٹھایا اولاد قابیل نے اس نے مجھے خوبصورت بنانے کے لیے میک اپ کا جھانسا دیا ۔اس نے گھر سے خوبصورتی اور پکوانوں کا لالچ دے کر مجھے باہر نکالا اور محض شو پیس بنا کے رکھ دیا میں اسکی چال ہی نہ سمجھ پائی الٹا کسی شیرنی کی طرح جسکے منہ نیا نیا خون لگا ہو بپھرنے لگی۔ اب محرموں کے حصار میں میرا دم گھٹنے لگا گھر کی چار دیواری مجھے قید خانہ لگنے لگی اور گھر داری میری صلاحیتوں پہ قدغن۔ اب دین اور اخلاقیات میرے لیے اہم نہیں رہے اہم ہے تو فنانشیل اور سوشل سٹیٹس۔ اب میں ہر دن ہر لمحہ نیا رشتہ بناتی ہوں اب میں ہر ایک سے بات کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی بلکہ یوں کہیں کہ اب میں ہر ایک کی پہنچ میں ہوں کوئی بھی ایرا غیرا مجھ سے بات کر سکتا ہے۔ یہ میرے خاص سے عام ہونے کی کہانی ہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )