مزاحمتی سیاست میں میاں نواز شریف کا یہ تیسرا چوتھاجنم ہے۔ مومن کی تعریف تو یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے مزاحمتی بیانیے پر ایمان لانے والے کارکن ‘ووٹر اور دانشور قابل داد ہیں کہ وہ دو تین بار دھوکہ کھانے کے باوجود ایک بارپھر مبتلائے فریب ہیں‘1993ء میں سابق صدر غلام اسحق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو آئی جے آئی کے مینڈیٹ پر اقتدار سنبھالنے والے سیاستدان نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ اسمبلیاں نہیں توڑوں گا‘ استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘ اس وقت بھی میاں صاحب نے ایک طرف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور دوسری طرف کارکنوں کو سڑکوں پر متحرک کیا‘ اسمبلیوں کی برخاستگی کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا واقعہ دلچسپ ہے‘1988ء میں محمد خان جونیجو کی حکومت اور غیر جماعتی اسمبلی کو جنرل ضیاء الحق نے برطرف کیا تو میاں نواز شریف ان سیاستدانوں میں شامل تھے جنہوں نے فوجی آمر کے اقدام کی تحسین کی‘ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالی اور اپنے بزرگ مجید نظامی مرحوم کا یہ مشورہ رد کر دیا کہ وہ مسلم لیگ کے صدر محمد خان جونیجو کا ساتھ دیں‘ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہوں۔ اس وقت میاں صاحب کا موقف تھا کہ تاریخ کی درست سمت پر کھڑا ہونا سیاسی خودکشی ہو گی‘ جنرل ضیاء الحق کی وفات پر حاجی سیف اللہ مرحوم نے اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا تو بھر پور سماعت کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے صدارتی اقدام کو کالعدم قرار دیدیا۔ مشہور زمانہ فیصلہ آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل اور جونیجو حکومت کی برطرفی غلط مگر انہیں بحال کرنے کا فائدہ نہیں۔ 1993ء میں اپنی برطرفی کے خلاف میاں نواز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا حاجی سیف اللہ کیس کی روشنی میں اسمبلیوں اور حکومت کی بحالی کی درخواست کی‘ چند روز بعد مگر اچانک درخواست واپس لے کر انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ اس سے پہلے عدالت عظمیٰ سے براہ راست رجوع کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں تھی ‘واقفان حال مُصر رہے کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اوربرادر ججوں کے مشورہ بلکہ فرمائش پر میاں صاحب نے یہ قدم اٹھایا تاکہ انہیں بلا تاخیر انصاف ملے اورحاجی سیف اللہ کیس کا فیصلہ آڑے نہ آئے کہ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد حکومت اور اسمبلیاں بحال کرنا مناسب نہیں۔ میاں صاحب قسمت کے دھنی ہیں اور مقدر کے سکندر‘ سپریم کورٹ نے صدارتی حکم کالعدم قرار دے کر ان کی حکومت بحال کر دی اور یہ تاثر ابھرا کہ سڑکوں پر آ کر قومی اداروں کو دبائو میں لانا آسان ہے اور مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا بہتر۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے عدالتی فیصلے کو ’’چمک ‘‘کا نتیجہ قرار دیا مگر میاں صاحب اپنے کارکنوں کے علاوہ ’’باشعور عوام‘‘ کو تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ سڑکوں پر جاری مزاحمتی تحریک نے عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلے پر مجبور کیا۔ یہ اور بات کہ چند روز بعد میاں صاحب نے جنرل وحید کاکڑ کی چھڑی دیکھ کر اسمبلیاں توڑ دیں‘ مستعفی ہو ئے اور ڈکٹیشن نہ لینے کی بڑہک سے تائب ہو گئے‘ جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے ایک تقریب میں میاں صاحب سے دوران تقریر گلہ کیا کہ ہم نے تو اسمبلیاں بحال کر دی تھیں مگر آپ نے پھر توڑ دیں اور ہم سے پوچھنا تک گوارا نہ کیا۔ 1997ء میں انہوں نے یہی حربہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف آزمایا اور اُن کے ساتھ صدر فاروق لغاری کو بھی گھر بھیج دیا اور یہی نسخہ 2000ء میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارگر رہا جب بیگم کلثوم نواز مخدوم جاوید ہاشمی اور احسن اقبال کو ساتھ لے کر سڑکوں پر نکلیں‘ گو مشرف گو کے نعرے لگے اور سعودی عرب‘لبنان کے حکمرانوں کی مداخلت پر فوجی آمر شریف خاندان کو جدہ بھیجنے پر تیار ہو گیا۔ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کی رخصتی عوامی دبائو کا نتیجہ تھی نہ شریف خاندان کی جلا وطنی کا سبب وہ تحریک تھی جو بیگم کلثوم نواز نے برپا کی‘ کہ ایک بار جنرل جہانگیر کرامت نے فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کے بجائے میاں صاحب کا ساتھ دیا اور دوسری مرتبہ امریکی صدر کلنٹن کی خواہش پر سعودی و لبنانی دوستوں نے منت سماجت کی مگر میاں صاحب اور ان کے حواریوں کو یقین ہے کہ یہ مزاحمتی سیاست کا کرشمہ تھا اور ابھی وہی کھیل نئے انداز میں کھیلا جا رہا ہے۔ فرق اب صرف یہ ہے کہ میاں صاحب کو سزائیں ان عدالتوں سے ملی ہیں جن کے جج مسلم لیگی دور حکومت میں مقرر ہوئے۔ مدعی نیب ہے جس کے چیئرمین کا تقرر مسلم لیگی وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے نامزد قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے مشورے سے کیا اور اتفاق سے آرمی چیف بھی میاں صاحب کا حسن انتخاب ہے‘جسٹس ثاقب نثار ‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ‘جسٹس جاوید اقبال میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے تقرر کی تہمت عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ پرلگائی جا سکے۔ میاں صاحب دو تین بار مزاحمتی سیاست کی آڑ میں عوام اور قومی اداروں کو بے وقوف بنانے‘ غیر معمولی مراعات لینے میں کامیاب رہے‘ پچھلے سال صحت کارڈ ان کے کام آیا اس مزاحمتی سیاست کا ملک اور جمہوریت کو کیا فائدہ ہوا؟اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ شریف خاندان کی چھ حکومتوں میں عوام کو کیا ملا اور جمہوریت کس قدر مضبوط ہوئی یہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ ہر بار اقتدار ملنے پر لوٹ مار‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا بازار گرم ہوا اور خاندانی و موروثی سیاست کو فروغ ملا‘ آج میاں صاحب منہ بسور کر گلہ کرتے ہیں کہ 2014ء کے دھرنے میں ان سے استعفیٰ مانگا گیا مگر یہ نہیں بتاتے کہ 1993ء میں انہوں نے دبائو پراستعفیٰ دیا۔لیکن2014ء میں استعفیٰ مانگنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی نہ قوم کو خبر کی‘اور فوجی قیادت کے خلاف بیان بازی کا حوصلہ بھی لندن جا کر ہوا وہ بھی دس ماہ کی معنی خیز خاموشی کے بعد۔ مزاحمتی بیانیہ ہمیشہ شریف خاندان کے لئے حصول مراعات کا ذریعہ بنا اور اس کی ضرورت تب محسوس ہوئی جب انگورکھٹے نکلے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ مزاحمتی بیانیے کے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ یہ ارکان پارلیمنٹ کو متحد کرنے میں مددگار ثابت ہوگا یا انتشار کا باعث؟۔ میاں صاحب فوجی قیادت اور رینک اینڈ فائلز کے مابین بدگمانیاں پیدا کرنے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘ یہ آنکھ جھپکنے کا کھیل ہے دیکھیں پہلے کون جھپکتا اورمدمقابل لقمہ بنتا ہے۔ چھوٹے صوبے کے کسی صدر‘ وزیر اعظم اور حکمران کو کبھی رازداری کے حلف کی خلاف ورزی اور ’’خاصاں دی گل عاماں اگے‘‘ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ‘کہ میاں محمد بخش کے بقول یہ’’مٹھی کھیر پکا محمدکتیاں اگے دھرنی ‘‘میاں صاحب مزاحمتی سیاست کی آڑ میں پاکستان کے قومی اداروں سے سودے بازی میں دو تین بار کامیاب رہے‘ اب بھی یہی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ع دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک میاں صاحب کو ویسے یقین ہے کہ ع بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے