ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی میرے پیارے قارئین:حیرت ہی وہ عمل ہے جس سے شہرِ طلسمات کے دروا ہوتے ہیں۔ یہ سیب کے کھانے سے لے کر سیب کے زمین پر گرنے تک کا ردعمل ہے۔ تو تدبر اور فکر ضروری ہے۔ ویسے تو ہبوط آدم کے ساتھ ہی شیطان بھی ساتھ ہی زمین پر اتر آیا تھا اور پھر اس نے ہمارے نفس کو بھی بیعت کر لیا۔ خیر میں بات تو کچھ اور کرنا چاہتا تھا مگر راہوارقلم کسی اور طرف چل نکلا۔ بات حیرانی سے شروع ہوتی تھی تو خالد احمد نے کیا خوبصورت شہر کہہ رکھا ہے: کھلا مجھ پر در امکان رکھنا مرے مولا مجھے حیران رکھنا کل خالد احمد کی چھٹی برسی تھی۔ وقت کیسے گزرتا ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے کہ ان کی آواز کا سوز دلوں کو گرماتا تھا۔ کبھی کبھی ہماری فرمائش پر وہ مترنم ہو جاتے تو لفظ آنسوئوں میں بھیگتے محسوس ہوتے: مجھے بے نام یا گمنام کر دے کہ اک آزار ہے پہچان رکھنا ہوا کی طرح صحرا سے گزر جا سفر میں کیا سرو سامان رکھنا آپ نے کبھی کسی کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے۔ میرا مطلب ہے جہاں آپ کو اپنائیت مجسم نظر آئے۔ میں نے اختر حسین جعفری آنکھیں دیکھی تھیں جہاں ستارے ٹمٹاتے تھے۔ خالد احمد کی کشادہ اور ذہین آنکھیں کس کو بھول سکتی ہیں وہ جب کبھی جھوٹ موٹ کے غصے کے ساتھ محبت بھرے انداز میں دیکھتے تو بندہ ان میں ڈوب جاتا۔ کیسی کیسی محفلیں الحمرا آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک میں جمتیں۔ نجیب احمد، اعجاز کنور راجہ‘ رفیق غوری اور کتنے دوست اس شمع کے اردگرد پروانوں کی طرح ہوتے۔ وہ ہم سب کو عزیز جاں رکھتے۔ ارشد شاہین کنور امتیاز سے لے کر نوید صادق اور عابد خان تک سب ان کے دیوانے تھے۔ عباس تابش انہیں مرشد کہتا تھا۔ مجھے ایک بات کا تعلق رہے گا کہ ان سے کچھ سیکھ نہ سکا۔ وہ میرے بارے میں کہتے کہ یہ ایک شخص ہے کہ شاعری جس کا مسئلہ ہے وہ سمجھتے تھے کہ شہرت شاعر کو گمراہ کر دیتی ہے۔ واقعتاً وہ ان چیزوں سے بے نیاز تھے۔ وہ چلتے پھرتے بھی کسی تخلیقی کرب سے دوچار ہوتے تھے۔ بے شمار مشاعروں اور پروگرامز میں ان کے ساتھ ہم رہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر تو روزانہ کی بنیاد پر ملاقات ہوتی تھی۔ انہیں کسی کی پروا نہ تھی۔ ان کا اپنا ہی رویہ اور انداز تھا۔ ایک روز ریڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران جب میں نے اپنی غزل کا مطلع پڑھا: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے وہ اچانک اپنی سیٹ سے اٹھے اور مجھے گلے لگا کر بولے ’’ایہہ تیری غزل اے۔ میں تے بندہ لبھ رہیا سی۔ یار توں تے پھس کے غزل کہنی شروع کر دتی اے‘‘ سب شاعر حیران یہ منظر دیکھنے لگے۔ بات چل نکلی ہے تو ایک عجیب منظر آنکھوں میں آ گیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی 75ویں سالگرہ پر جب ہم ایک گروپ فوٹو بنا رہے تھے تو خالد احمد نے ایک بچے کی بب اتاری اور حضرت احمد ندیم قاسمی کے گلے میں ڈالنے لگے۔ قاسمی صاحب نے ہنستے ہوئے ان پر چھڑی اٹھا لی۔ یہ لاڈ اور یار سب یادوں کا حصہ ہے۔ وہ ٹی ہائوس میں نجیب احمد کے ساتھ موجود ہوتے تو اختر حسین جعفری صاحب آتے ہی انہیں دس دس روپے دیتے۔ فنون ہوکہ بیاض یہ ایک خاندان ہی تو تھا۔ پھر عمران منظور جیسا بانکا اور پیارا شخص کون ہو گا جس نے خالد احمد کی وراثت کو کلیات کی صورت شائع کر دیا اور ان کا بیاض اب تک جاری ہے۔ اس کے بعد نعمان منظور کہ جس نے خالد احمد پر ایک محبت نامہ ’’پیمان محبت‘‘ لکھا ان کے ہونہار بیٹے جاوید احمد نے اپنے باپ کو یاد کیا اور کچھ اشعار اپنی فیس بک پر لگائے: میری بات کہتے رہنا یہ قلم اٹھائے رکھنا یہ علم فرو نہ کرنا یہ فلک سجائے رکھنا ابھی آسماں کھلیں گے ابھی بادباں نکلیں گے سبھی لوگ سیکھ لیں گے کبھی اپنی رائے رکھنا کبھی دھول ڈال جانا کبھی پھول ڈال جانا مری بزم سے کشادہ مری غم سرائے رکھنا خالد احمد کا خانوادہ ادب سے علاقہ رکھتا تھا۔ خدیجہ منور اور حاجرہ مسرور جیسے بڑے ناموں سے کون واقف نہیں۔ آپ دونوں خالد احمد کی ہمشیرہ تھیں۔ توصیف خاں آپ کے بڑے بھائی تھے۔ اللہ توصیف خاں کے درجات بلند کرے۔ مجھے کالم نگاری میں لانے والے بھی وہی تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کی ساری ادبی پرورش کی اور وہ فنون مکتبہ فکر کے روح رواں تھے۔ بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ان کی بے تکلفی یونہی نہیں تھی جب حفیظ جالندھری نے یہ شعر پڑھا۔ حفیظ اہل زبان کب مانتے تھے۔ بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں’’خالد احمد سامنے سے بولے‘‘ فی زور ای لانا پیا ناں!‘‘حفیظ صاحب نے ضرور چھڑی اٹھائی ہو گی۔ کئی مزے مزے کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ جب ہم ابوظہبی گئے تو ایئر پورٹ پر چائے پی تو خالد احمد نے بل دیا مگر ٹپ جو بیرے کو دیا وہ بل سے زیادہ تھا جب ابوظہبی پہنچے تو کہنے لگے یار ! گردن بہت درد کر رہی ہے‘ میں نے کہا ’’خالد احمد صاحب یہ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا کہ میں کہوں کہ لائیے آپ کی گردن دبا دوں‘‘ اپنے مخصوص انداز میں عینک نیچے کرکے مجھے گھورنے لگے۔ ہائے ہائے کیا اپنائیت تھی وہاں جو مہمان آتا تو کہتے جو تحفہ میرے لئے لائے ہو وہی سعد کے لئے بھی لائو۔ وہ تو خالد احمد کے معتقد تھے اور میں طفل ادب۔ ان کے ہاں صوفیا کی شاعری کا جوہر بھی ملتا ہے۔ کہ اس ضمن میں ان جیسی نظمیں اردو ادب میں نہیں لکھی گئیں۔ سیاسی شعور بھی ان میں بلا کا تھا: شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے ان کی شاعری میں پورا اسلامی شعور بھی جلوہ گر ہے۔ حوالے دینے بیٹھوں تو کالم ناکافی ہے مزے کی بات تو یہ کہ وہ سائنس کے آدمی تھے۔ فزکس میں انہوں نے ماسٹر کیا تھا اور پھر اردو اب اور شاعری تو ان کے گھر کی باندھی تھی۔ وہ ایک ذہن رسارکھتے۔ وہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بات کرتے۔ حافظہ بھی بلا کا تھا۔ شاعری کو اکسیر بنایا۔ حمدو و نعت کے معاملہ میں حفیظ تائب کی صحبت انہیں میسر تھی۔ ان کے دو نعتیہ اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا: تیرے اوصاف بھلا کس سے بیاں ہوتے ہیں نعت خود لکھی بہ پیرایہ سیرت لکھی خالد احمد تیری نسبت سے ہے خالد احمد تونے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی