کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو تو رُکے یا نہ رُکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیئے ہیں تری آسانی کو اس سے پہلے کہ دل کے در کھولے جائیں ایک چھوٹی سی بات مجھے کہنی ہے کہ اس طرح ایک اینکر اپنے پروگرام میں بھی کرتے آئے ہیں۔ نادرا کے دفتر کے باہر ایک فوٹو کاپی کرنے والا کھڑا۔ اس سے میں نے شناختی کارڈ کی چار کاپیاں کروائیں تو اسے بیس روپے ادا کرنا تھے۔ اس کے پاس پانچ سو روپے کھلے نہیں تھے۔ مجبوراً اس نے کہا ’’جناب! آپ ایسے ہی لے جائیں‘‘۔ بات تو ختم ہو گئی تھی۔ 20روپے کی بچت ہو گئی تھی۔ مگر مجھے تو جیسے اپنے اوپر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔ میں ایک شاپ پر گیا۔ وہاں سے آئل کے پیکٹ خریدے۔ ریزگاری ملی تو جا کر اس شخص کو جس نے فوٹو کاپی کی تھی اس کے 20روپے ادا کر دیئے۔ بات تو یہ معمولی تھی مگر اس چھوٹے سے عمل نے مجھے ایک عجیب طمانیت اور خوشی سے سرفراز کیا اور دوسری جگہ اس آدمی کی آنکھوں میں ایک بے نام سا تشکر تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے اندر قدرت نے عجب لطف رکھا ہے۔ میں ایک پڑوسی کو جانتا ہوں جو اکثر مسجد میں آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں صابن کا پیکٹ ہوتا ہے اور وضو کرنے کی جگہ وہ صابن رکھ دیتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور عمل کتنے خوبصورت ہیں۔ قتیل شفائی یاد آئے: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا چندر وز پہلے میں نے عبدالعزیز جاوید کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا جس میں مولانا روم کیمیائے سعادت کے حوالے سے بات کی تھی۔ انتہائی خوشگوار بات یہ ہوئی کہ محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا فون آیا اور کہنے لگے کہ آپ کے کالم کی داد مجھ پر واجب تھی کہ آپ نے ایک درویش عبدالعزیز جاوید کو خراج تحسین پیش کیا۔ آپ کے اخبار 92نیوز کو یہ فریضہ سرانجام دیتے رہنا چاہیے۔ اس کے بعد بتانے لگے کہ وہ اس درویش کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور جتنا انہوں نے کام کر رکھا ہے لوگ اس سے واقف نہیں اور وہ عبدالعزیز جاوید کے مقام سے بھی آگاہ نہیں۔ کہنے لگے کہ وہ زاہد خشک بھی نہیں ہیں بلکہ بہت بزلہ سنج ہیں۔واقعتاً یہ بزلہ سنجی اگر غالب میں نہ ہوتی تو آج ہم اس کو اس طرح نہ جانتے۔ وہ اتنی سنجیدگی سے مزے کی بات کرتے کہ ہنسی رکتی ہی نہیں۔ جب انگریز نے پکڑ دھکڑ میں غالب کو بھی دھر لیا تو پوچھا گیا کہ کیا وہ مسلمان ہے تو غالب نے کہا ’’آدھا‘‘۔ پوچھا وہ کیسے تو فرمایا ’’شراب پیتا ہوں سؤر نہیں کھاتا‘‘۔ مگر جب میں غالب کا ایک شعر دیکھتا ہوں تو اس پر پیار آ جاتا ہے: حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں معزز قارئین! گھبرائیے نہیں، میں ذرا سا اکھڑ گیا ہوں کہ جب بات سے بات نکلتی ہے تو میں اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوں۔ آج تو مجھے ذکر کرنا تھا ایک محفل کا جو ہمارے برادرِ خورد عبدالغفور ایڈووکیٹ نے گھر پر منعقد کی تھی۔ عبدالغفور پر رشک آتا ہے کہ وہ وکیل ہوتے ہوئے بھی انتہائی راست انداز میں زندگی بسر کر رہا ہے اور اس کے کام بھی اپنے شعبے کے ساتھ لگا نہیں کھاتے۔ اب دیکھیے ناں میں نے اپنے گھر پر کراچی کے معروف سکالر خالد جامی صاحب کو مدعو کر رکھا تھا۔ خالد جامی مکالمے کے شاہسوار ہیں۔ آپ ان کو سجاد میر اور یا مقبول جان اور دوسرے اس نوع کے فصیح و بلیغ لوگوں کے ساتھ رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کو یعنی جامی صاحب کو سننے والے بھی عالم فاضل ہی تھے۔ ان کی باتیں بڑی پرمغز تھیں اور اتنی زیادہ تھیں کہ ان کو سمیٹنا میرے بس کی بات ہی نہیں۔ ایک بات جو بنیادی تھی کہ ہمارا پیراڈائم بدل چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا سارا پرانا سیٹ اپ تہس نہس ہو گیا ہے۔ تمام روایات اور اقدار تک ایک طرف، ہمارا رہن سہن اور عادت و اطوار ہی بدل چکے ہیں۔ مثلاً آپ دیکھیے کہ قدرت نے رات کو سونے کے لیے تخلیق کیا اور دن کو محنت مشقت یا کاروبار کے لیے مگر یہاں تو یہ سب کچھ الٹ ہو گیا۔ لوگ راتوں کو جاگتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں۔ راتوں کو شاپنگ مال چلتے ہیں اور دن کو سب کچھ ٹھپ نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ہم نے فطرت سے بغاوت کر رکھی ہے۔ یہ سب اس لیے ہوا ہے کہ انسان نے گائیڈ لائن لینے کی بجائے خود اپنے ذہن سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے اور جب سے ٹیکنالوجی اور ماڈرن سوچ آئی ہے تب سے انسان بے بس ہو گیا اور مشین کو پہلے وہ چلاتا تھا پھر مشین نے اسے چلانا شروع کر دیا۔ مجھے اقبال یاد آئے: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات جامی صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ ماڈرن اپروچ نے چیزوں کو آگے بڑھایا تو اسے عام شخص سے کاٹ کر رکھ دیا جو بھی ترقی ہوتی رہی وہ مراعات یافتہ کے لیے ہوتی رہی۔ مثال میں انہوں نے کہا کہ وہ خواہش کے باوجود موٹروے پر سائیکل نہیں چلا سکتے، نہ رکشے والا رکشہ چلا سکتا ہے۔ ان کی اس مثال سے ہم بھی چونکے کہ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ موٹروے پر نہ سہی میٹرو پر ہم موٹر سائیکل ہی چلا سکیں۔ آخر ان جگہوں کو اتنا محدود کیوں کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر میں موٹر سائیکل پر اپنے مہمانوں کو لینے لائونج تک کیوں نہیں جا سکتا۔ آخر گاڑی ہی کیوں ضروری ہے۔ بات تو سوچنے کی ہے کہ ان بڑے بڑے پراجیکٹس نے جسے جنگلہ بس بھی کہا گیا۔ علاقوں کو دو لخت کر کے رکھ دیا۔ ادھر کے لوگ ادھر اور ادھر کے ادھر نہیں آ سکتے۔ اور فراز کہتے ہیں کہ ’’مکیں ادھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں‘‘۔ چلیے پہلا مصرع ملا کر شعر لکھتے ہیں: سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں یقیناً خالد جامی صاحب یہ جانتے ہی ہونگے کہ اب تو سب کچھ کارپوریٹ سیکٹر ہی کنٹرول کر رہا ہے مگر مودی جیسا قاتل بھارت کا وزیر اعظم کیسے بنتا۔ ایک بات انہوں نے بہت اچھی کہی کہ ہمیں اپنے بچوں کو اپنے عظیم ماضی کے ساتھ روشناس کرانا چاہیے۔ ان کی عادات کو خطرات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا مذہب فطری مذہب ہے اسے بچوں کے شعور اور لاشعور کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ جو دنیا میں تیزی آ رہی ہے اس نے سب کو تلپٹ کر دیا ہے۔ افراتفری پیدا ہو گئی۔ سب ایک دوسرے کو پامال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کسی کے پاس ٹھہر کر سوچنے کا موقع ہی نہیں۔ ایک مسابقت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور سب کچھ مادہ پرستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف ہرگز نہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے مگر اس سے پیدا ہونے والے نقصان کو تو کم کیا جا سکتا ہے۔