اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی، مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کرکے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، خالد محمود صدیقی سندھ اور منیر احمد خان کاکڑ بلوچستان سے ممبر ہونگے ، حکومت نے اس معاملے پر آئین کے خاموش ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پارلیمانی کمیٹی بھی معاملے پر اتفاق رائے نہیں کر سکی تھی ۔آئین کے آرٹیکل213دو الف کے تحت ممبران کے تقررکے لئے وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت میں اتفاق نہ ہونے پرمعاملہ کمیٹی کے پاس جانا ہوتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا۔ کمیشن کے ناموں پر پارلیمانی کمیٹی بھی فیصلہ نہ کر سکی تھی اور کمیٹی میں بھی معاملے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔آئین میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت میں اتفاق رائے نہ ہونے پر کمیٹی سے رجوع کرنے کا تو کہا گیا ہے مگر کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آگے کچھ نہیں بتایا گیا کہ کیا کیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں مجاز اتھارٹی کون ہے ۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے دوممبران کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔ اس حوالے سے وزیر قانون سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی طرف سے فون نہیں اٹھایا گیا ۔ دریں اثنا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے دونوں نام مسترد کرکے تقرری کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔خورشیدشاہ نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری غیرقانونی ہے ،اپوزیشن الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کیخلاف قانونی چارہ جوئی کریگی،ارکان کی منظوری میں آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے ،اس قسم کے فیصلے سے الیکشن کمیشن آزاد اورغیر جانبدار نہیں رہے گا،اس قسم کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے اوپر ایک سوالیہ نشان ہے ،آئین کے اندراس طرح کی تقرری کی کوئی گنجائش نہیں۔ن لیگ کی ترجمان مریم اونگزیب نے کہاکہ ن لیگ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری مستردکرتی ہے ،دونوں ارکان کی تقرری غیرآئینی و غیرقانونی ہے ،الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کو نظراندازکیاگیا،حکومت نے پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے نوٹیفکیشن جاری کیا،الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری اپوزیشن کی مشاورت سے کی جائے ۔