ایسے ہی یہ خیال آیا کہ ہم برف باری دیکھنے، پہاڑوں پر جاتے ہیں۔ قدرتی چشمے اور سبزے سے ڈھکے ہوئے منظر دیکھنے کے لیے، جتن کرتے ہیں، ہزاروں روپے لگا کر سفر کرتے ہیں۔ مگر کبھی ہم نے اپنے بچوں کو تاروں بھری خاموش اور فسوں خیز رات کا تجربہ کروایا؟ ہم نے کبھی اس کے متعلق سوچا بھی نہیں ہو گا۔ ہمارا تعلق تو اس خوش قسمت نسل سے ہے جو تاروں بھری راتوں سے کہانیاں سن کر نیند کی طلسمی آغوش میں سوتی تھی۔ مگر آج کل کے نوجوان، یا پھر آج کل بچے، جنہوں نے اپنی زندگیوں میں کبھی ایسی خالص رات کا مشاہدہ نہیں کیا، کتنے بڑے تجربے سے محروم رہے۔ ہماری راتیں مصنوعی روشنیوں سے آلودہ، سکرین زدہ ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیائی دلدل میں ہمہ وقت دھنسے رہنے سے ہم اس کا اندازہ مجھے چند روز پیشتر ہوا۔ عیدالفطر سے دو دن پہلے ہمارے علاقے میں بجلی کا کوئی بڑا نقص ہو گیا۔ بجلی کا یہ بریک ڈائون ذرا سا طویل تھا جو بجلی جانے کے بعد بھی گھر کو روشن رکھنے والے یو پی ایس پر بھاری پڑا اور یوپی ایس چراغ سحری کی طرح بجھ گیا۔ اب گھر کے ہر کمرے سے لے کر باہر لان تک ایک گھمبیر اندھیرا پھیل گیا۔ میرے بیٹے کے لیے یہ بالکل نئی صورت حال تھی۔ ایک مکمل تاریک رات کی صورت پہ خالص اندھیرا۔ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ماما یہ کیا ہو گیا ہے؟ اتنا اندھیرا کیوں ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ٹارچ کی روشنی میں ہمارے سایے، ہمارے وجود سے نکل کر کمرے کی دیواروں تک پھیل گئے تھے۔ یہ بھی بچے کے لیے ایک ڈرائونا سا منظر تھا۔ چلو آئو باہر لان میں بیٹھتے ہیں میں نے کہا تو وہ فوراً بولا ،نہیں ماما ،مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پھر باہر آ کر میں نے آسمان پر چمکتے تارے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ میں چاہتی تھی کہ اس خالص رات میں اسے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے دکھائوں، مگر لاہور شہر کا آسمان گرد آلود تھا، آسمان اپنے خزانے ہم سے چھپائے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس پورے منظر میں ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ بالآخر ہمیں نظر آ ہی گیا۔ دانیال تو باقاعدہ پرجوش انداز میں بولا ماما وہ دیکھیں۔ ایک ستارہ ،پھر ہم ماں بیٹاگرد آلود آسمان کی گلیوں میں ستارے ڈھونڈنے کی مشق کرتے رہے ہیں۔ ایک روشن ستارے کے ساتھ کہیں کہیں کچھ مدھم سے بجھے ہوئے ستارے بھی دکھائی دیئے۔ میری یادوں میں بچپن کا تاروں سے بھرا ہوا آسمان جگمگا اٹھا۔ وہ گرمیوں کی راتوں میں تاروں بھرے آسمان تلے سونا، ایک ناقابل فراموش یاد ہے۔ جنوبی پنجاب کی غصیلی گرم دوپہروں کے بعد، شام اترتی تو ہوائیں چلنے لگتیں۔ راتیں دن کی نسبت خاطر خواہ ٹھنڈی ہوتیں ،چھت پر چار پائیوں کی قطاریں اور تاروں بھرے آسمان کی چادر اوڑھ کر ہم خوابوں کے رتھ پر سوار نیند کی وادیوں میں جا اترتے۔ آج کل کے نوجوان اور بچے، رات کے اس فسوں خیزتجربے سے محروم ہیں۔ ہماری راتیں مصنوعی روشنیوں سے آلودہ ہیں۔ زندگی سکرین زدہ ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوئے لوگ، راتیں دن بن چکی ہیں۔ فون کمپنیوں کے رات کے اوقات میں انٹرنیٹ سستے پیکج کسی نشے سے کم نہیں، ایسے میں لوگ اپنے گھروں میں اپنے ساتھ رہنے والوں کو بھی میسر نہیں اور خود بھی انٹرنیٹ او سوشل میڈیا کی پرفریب دنیا میں الجھے، لاحاصلی کاشت کرتے ہیں۔ سکرین کی چکاچوند سے باہر،ایک فسوںخیز رات پر دن کے بعد ہمارے آ نگن میں اترتی ہے۔ تاروں کے قافلے، اپنی مشعلیں لے کر آسمان کی رہگزر پر روز اترتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان بڑے شہروں میں تو راتوں کو روشن کرنے کی سعی میں ہم نے قدرت کے توازن کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ راتوں کو دن بنا کر ہم نے اپنی صحت سے بھی کھلواڑ کیا ہے۔ راتوں کو جاگنے والے، ذہنی دبائو کا شکار اور ڈپریشن کے مریض بنتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور نظام انہظام کے عارضے، قدرت کے اسی توازن کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔ ہماری صحت کی حفاظت کا شاندار دفاعی میکانزم جو مدافعتی نظام کی صورت قدرت نے ہمارے جسم کے اندر رکھ دیا ہے وہ رات کے اندھیرے میں جب جسم مکمل سکون اور نیند کی حالت میں ہو تو تبھی کام کرتا ہے۔ راتوں کو جاگنے والوں کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ رات دس سے صبح چار بجے تک کی اچھی نیند لی جائے تو انسانی جسم کے اندر پیدا ہونے والے بہت سے عوارض خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔رات ہماری معالج، ہماری مسیحا اور ہماری دوست ہے، اس کو پہچانیں۔ اس کی آئو بھگت کریں۔ راتوں کو دن بنا کر قدرت کے نظام میں موجود توازن کو خراب نہ کریں تو ہمارے لیے بھی بہتر ہے۔ رات کا اندھیرا انسانی ذہن اور جسم پر اس قدر مسیحائی اثرات رکھتا ہے کہ ایک تازہ ریسرچ کے مطابق سوتے وقت بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پیلی روشنی والے لیمپ بھی مت جلائیں کیونکہ سوتے ہوئے شخص کے سرہانے پڑا لیمپ براہ راست اس پر روشنی ڈالتا ہے جس سے مدافعتی نظام ڈسٹرب ہوتا ہے۔ مسلسل اس طریقے سے سونے والے افراد ذہنی دبائو، بلڈ پریشر شوگر سے لے کر کینسر تک کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ لیمپس کی روشنیوں کو مدھم رکھیں اور اپنے سرہانے بیڈ سائیڈ ٹیبل سے ہٹا دیں۔ مختصر بات یہ کہ رات کی خالص رات رہنے دیں یہ آپ کی معالج اور مسیحا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ راتوں کو دن بنا کرقدرت کے توازن میں بگاڑ پیدا نہ کریں۔ کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ خالص اور فسوں خیز رات میں تاروں بھرے آسمان کا تجربہ ضرور کریں۔