دکھاوے‘ ریاکاری سے لے کر اداکاری تک معاشرے میں اس قدر پروان چڑھ چکی ہے کہ سوائے چند مثالوں کے علاوہ کوئی مثال نہیں دی جا سکتی چاہے پیر ہوں یا فقیر‘ روحانیات سے لے کر سیاسیات تک ایسی شرمناک مثالیں اور کردار وافر تعداد میں موجود ہیں کہ شعبدہ بازی کے ماہرین منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اسی دنیا اور اسی سماج میں ایسے روشن اور تابندہ ستارے بھی موجود ہیں کہ جن کی زندگی میں تو کسی کو پتہ نہ چلا کہ یہ شخص کتنے نیک اعمال کرتا ہے مگر پس مرگ احساس ہوتا ہے کہ جب خلقت آ کر گواہی دے۔ کار خیر سے وابستہ ایک ایسی ہی شخصیت کے بارے میں ایک کتا ب پر نظر پڑی ’’خاموش فلاح کار‘‘ تو کتاب سرورق سے لے کر آخری سطر تک انکشافات و کمالات کا مرقع۔محمودالحق علوی کی داستان ایثار پڑھتے پڑھتے یہ احساس بھی دامن گیر ہوا کہ ان کی زندگی میں ان کی زیارت سے محروم رہا۔ پاک فضائیہ میں بڑے اہم عہدے سے ریٹائر ایئر کموڈور پروفیسر اسلم بزمی کی یہ تصنیف پڑھ کر تعفن زدہ معاشرے میں سے خوشبو کا ایک جہان چہار سو بکھر گیا۔ اسلم بزمی صاحب لکھتے ہیں کہ صاحب ثروت ہونے کے باوجود ان کی شخصیت میں عاجزی اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ان کا گرویدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ارادت مند ہوگیا۔ میرا گمان کہتا تھا کہ اس شخصیت نے یہ کتاب اپنی زندگی میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دی ہو گی کہ مبادا ریاکاری کا ایک چھینٹا بھی ان کے اعلیٰ کردار پر نہ پڑے۔ اوکاڑہ میں مرحوم نے دو سو بیڈ کا فری ہسپتال بنوایا۔ جہاں پر ہر قسم کے جدید آپریشن اور علاج آج بھی غریب نادار اور مستحق افراد کے لیے امید کی کرن ہے۔ راولپنڈی میں علی ٹرسٹ کالج قائم کیا جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں طلباء مفت تعلیمی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔ مصنف اور موصوف آپس میں گہرے دوست تھے اور ان کی دوستی کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ بزمی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ انہیں تہراڑ روڈ راولپنڈی ان کے تعلیمی ادارے علی ٹرسٹ کالج میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ علوی صاحب طلباء کی صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ دیکھ رہے تھے مگر جونہی مہمان خصوصی کو سٹیج پر بلایا گیا علوی صاحب اچانک ہال سے اٹھ کر دبے پائوں نکل گئے کہ ان کی تعریف کا ایک جملہ بھی وہ نہ سن سکیں ورنہ آج کل تو اپنی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک نہیں سینکڑوں ایسی مذہبی اور روحانی شخصیات ہیں کہ سٹیج پر بلانے سے قبل جتنے القاب سے پکارا جائے اتنے ہزاروں کے نوٹ ’’نذر‘‘ کئے جاتے ہیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ان کے گھر ان کی دعوت پر گیا۔ ڈرائنگ روم میں کافی دیر تک انتظار کیا۔ اس زمانے میں موبائل جیسی سہولت ناپید تھی کہ بندے کی لوکیشن تک سکرین پر آ رہی ہوتی ہے۔ ملاقات میں معذرت کی مگر جو ڈرائیور انہیں چھوڑنے گیا اس نے بتایا کہ سڑک پر ایک ڈمپر کی ٹکر سے راہ گیر زخمی ہوگیا تھا‘ ڈمپر ڈرائیور نے بریک لگانے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی مگر علوی صاحب نے اسے اپنی گاڑی میں ڈال کر اسلام آباد کمپلیکس ہسپتال پمز لے گئے اور جب تک وہ ہوش میں نہیں آیا وہاں سے چلے نہیں آئے۔ اس کی ادویات کے اخراجات خود ادا کئے۔ اس خوبصورت اور اپنی مثال آپ فلاح کار کا یہ روپ کتنا سندر لگتا ہے کہ ان کے ڈرائیور کے بقول روزانہ گاڑی میں درجنوں نئے سلے ہوئے ازار بند سمیت شلوار قمیض رکھے ہوتے تھے۔ کہیں بھی ضرورت مند نظر آتا تو ڈرائیور کو بھی پتہ نہ چلے‘ تقسیم کرتے۔ کھانا پکوا کر مزدوروں کے ساتھ سڑک پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا۔ ضرورت مند کی مدد دکھاوے کے بغیر کرنا‘ مصنف نے کئی واقعات کا ذکر کیا کہ جن پر تیس سال قبل کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر کسی سے ذکر تک نہ کیا ،اگر پتہ چلنے پر مصنف نے کرید کرید کر پوچھنے کی کوشش کی تو صاف الفاظ میں ٹال گئے۔ علوی صاحب نے فلاح کاری کے میدان میں خاموشی سے کبھی نہ مٹنے والا کردار ادا کیا۔ اس سپاہی کی طرح کہ جو اپنے ملک کی سرحد پر حفاظت کرتے کرتے جان دے دیتا مگر اسے صرف خدا ہی دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کی قربانی کا صلہ بھی خدا ہی دیتا ہے۔ پاکستانیت کے شہیدوں سے مل کر فلاح و بہبود تک کے چھپے ہوئے کرداروں اور جانبازوں کو ہم سب کا سلام جو مر کر بھی نہیں مرتے جبکہ شہرت اور نمود و نمائش کی دنیا کے طالب زندہ رہتے ہوئے بھی نفرت اور حقارت کے قبرستان میں ہر لمحے زندہ درگور ہوتے رہتے ہیں۔