اخبارات میں جب یہ خبر پڑھی کہ حکومت میڈیا کے لئے خصوصی عدالتیں بنانے جا رہی ہے تو مجھے عمران خان کا جولائی کا دورہ یاد آیا۔23 جولائی کو انہوں نے تھنک ٹینک USIPمیں نینسی لینڈ برگ کے سوال کے جواب میں تفصیل سے کہا کہ پاکستان کا میڈیا نہ صرف آزاد ہے بلکہ بعض اوقات تو کنٹرول سے باہر یعنی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کئی مثالیں دیں، جیسے کہ ایک اینکر کی ان کی طلاق کے بارے میں خبر۔ ایسی باتیں تو نہ برطانیہ اور نہ ہی امریکہ کے میڈیا میں کہی جا سکتی ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ خود امریکہ کے سفیر نے کہا تھا کہ پاکستان کا میڈیا Out of Controlہے اور ہمیں اس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی اقدامات کے ذریعے نہیں بلکہ میڈیا کے چوکیداروں کے ذریعے یعنی Media Watchdogsکے ذریعے اور ہم ان چوکیداروں کو بہت مضبوط بنائیں گے، سنسر شپ لگا کر نہیں بلکہ قانونی طریقوں سے۔ اس تقریر کے ہی اگلے دن جب میں وزیر اعظم سے اپنے سفیر کے گھر ملا تو بھی میڈیا ہی کا موضوع سرفہرست تھا۔ میں نے جو احوال اس ملاقات کا لکھا اس کی شہ سرخی ہی یہ تھی کہ خان صاحب میڈیا پر بہت غصے میں ہیں اور مجھے Menacingیعنی خونخوار موڈ میں نظر آئے ۔بہت ساری باتیں ہوئی اور وہ دو تین میڈیا گروپس میں سے زیادہ خفا تھے۔ میں بھی ان دو بڑے اداروں میں کئی سال لگا چکا تھا اور ان کے غیر صحافتی ہتھ کنڈوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ خان صاحب نے کہا ضرورت ہوئی تو ضرور مشورہ کریں گے۔خان صاحب کے نیو یارک کے سفر سے پہلے میں نے پھر موضوع اٹھایا کیونکہ اب ٹی وی اور اخباروں میں کئی طرح کی کہانیاں چل رہی تھیں جن کے بارے میں اپنے پچھلے جمعہ کے کالم میں بھی لکھا تھا۔ خان صاحب کے حلقوں کا جواب آیا کہ یہ لوگ خان صاحب کو جانتے نہیں اور وہ ان لوگوں کو جو حکومت کو ہلانے کی کوشش کر رہے ہیں بھر پور جواب دیں گے۔ مطلب یہ تھا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا تو پھر۔ آخری پیغام یہ تھا کہ فیصلہ ہو گیا ہے پھر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ 30سے زیادہ میڈیا کے ترجمانوں کی لمبی لمبی میٹنگیں ہوئی ہیں اور آخر مادام فردوس اعوان نے بتا ہی دیا کہ خصوصی عدالتیں بنانے پر غور ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا جس نے بھی یہ مشورہ دیا ہے وہ میڈیا کو پوری طرح سمجھتا ہے ۔یہ بات تو ظاہر ہے کہ جتنا تاثر ملے گا کہ میڈیا کو دبایا جا رہا ہے اتنا ہی الٹا اثر ہو گا۔ خصوصی عدالتیں تو ایسے لوگوں کے لئے اور نہایت سنگین حالات میں بنائی جاتی ہیں جب عام موجودہ طریقوں سے حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے ،جیسے دہشت گردی کے خلاف اور امن و عامہ کی بحالی کے لئے۔ خان صاحب تو خود کئی دفعہ کہہ چکے ہیں اور یہ بات انہوں نے USIPمیں بھی کہی تھی کہ انہیں دو تین میڈیا گروپس سے شکایت ہے اورباقی 70سے زیادہ ٹی وی چینل سے بالکل پریشان نہیں تو صرف وہ ٹی وی والوں کو ٹھیک کرنے کے لئے 30سے زیادہ ترجمان اور خصوصی عدالتیں بنانا کچھ اوور ری ایکشن لگتا ہے۔ میڈیا گروپ اور خاص کر میڈیا کے مالکان کی شکایات اور ضروریات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے دور کی حکومتوں نے ان کو اتنا استعمال کیا کہ اب ان کی عادت ہی بن گئی ہے کہ کوئی ان کو ڈھیروں اور اربوں کے حساب سے چارہ ڈالتا رہے اور جو کام لینا ہے لیتارہے۔ میں اس سے زیادہ سخت الفاظ بھی استعمال کر سکتا تھا مگر سمجھنے والے سمجھ گئے ہونگے۔ اب عمران خان کو یہ فالتو مال اور سرکاری مال ضائع کرنے کی نہ تو عادت ہے اور نہ ٹریننگ، وہ تو خود ہمیشہ اپنے فلاحی کاموں کے لئے لوگوں سے چندہ جمع کرتے رہے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ اس پیسے کو کیسے خرچ کرنا چاہیے ،تو انہوں نے آتے ہی سب کی دودھ ملائی اور حلوے پراٹھے بند کر دیے پھر سرکاری اشتہاروں کے ریٹ ایسے کم کئے کہ اکثر میڈیا والوں کی چیخیں نکل گئیں۔ مگر سمجھنے کی بات یہ تھی جن بڑے گروپس کو وہ کنٹرول کرنا چاہتے تھے وہ اتنے مالدار اور گہری جیبیں رکھتے ہیں کہ سال دو سال میں ان کا کچھ نہیں بگڑنے کا ،بلکہ وہ اپنے اثر کو استعمال کر کے خان صاحب کی حکومت کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ خود خان صاحب کی حکومت نے ایک سال میں انہیں اتنا مواد مہیا کر دیا کہ وہ دن رات حکومت کا باجا بجانے میں مشغول ہو گئے اور ہیں۔ تو اب اس صورتحال میں کیا پالیسی ہونی چاہیے۔ خان صاحب کے میڈیا کے مشیر ابھی تک کوئی قابل عمل اور Practicalحل نہیں پیش کر سکے۔ جو لوگ ان کے قریب ہیں وہ ہر وقت اس خوف میں ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی بنی گالہ سے ان کی چھٹی نہ کرا دے۔ ایک میڈیا کے مالک جو کافی قریب ہو گئے تھے اچانک ایک خبر کے بعد فارغ کر دیے گئے ۔ کچھ اینکرز اور ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی میڈیا کے آزاد تجزیہ کار بن جاتے ہیں اور موقع ملتے ہی کوئی نہ کوئی حکومتی عہدہ پکڑ لیتے ہیں، اب اگر خان صاحب کے قریب آ گئے ہیں تو پھر ان کا پہلا کام اپنی نوکری بچانا ہے نہ کہ خان صاحب کو ایسے مشورے دینا جن کی وجہ سے میڈیا کسی حد تک ہمدرد رہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہ اچھالے۔ خاص کر آج کل کے خطے کے حالات کی مناسبت سے خان صاحب کو چاہیے تھا کہ پانچ چھ بڑے گروپ کے مالکوں کو بلاتے ان سے ان کی درد بھری داستانیں سنتے اور کچھ نہ کچھ دے کر انہیں ٹھنڈا کرتے۔PBAجو ٹی وی کے مالکوں کا ادارہ ہے۔ اس میں مجھے معلوم ہے خان صاحب کے ذاتی اور بے غرض دوست موجود ہیں مگر آج تک خان صاحب نے ان کوکال بھی نہیں کی ہو گی کیونکہ ایساکرنے سے جو مشیران کی فوج ہے وہ خطرہ محسوس کرنے لگے گی۔ بڑے گروپس کی جائز شکایات پر فوری عمل ہونا چاہئے تھا اور ایسی شکایات جن سے حکومت کو کچھ خرچ بھی نہ کرنا پڑتا۔ مثلاً ہمارے کیبل آپریٹرز کے پاس 70,75چینلزسے زیادہ دکھانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یعنی ایک عام ٹی وی پر 80چینلز ہی چل سکتے ہیں۔ مگر Pemraنے 120سے زیادہ لائسنس جاری کر رکھے ہیں اور مزید دیئے جا رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ ان چینلز میں ہر وقت ایک دوڑ لگی رہتی ہے اور رشوت دیئے بغیر ان کا چینل یا تو نظر ہی نہیں آئے گا یا بالکل آخری نمبروں پر۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی نئے چینل کروڑوں خرچ کر کے شروع میں ہی ٹاپ 10کی لسٹ میں نظر آنے لگے تو یہ دوڑ ہر چینل کو مہنگی پڑ رہی ہے ۔حکومت نے DTHیعنی ڈش لگا کر چینل دیکھنے کا عمل شروع تو کیا ہے مگر وہ بڑا لمبا اور مہنگا ہے ۔ اسلام آباد میں ایک کمپنی ڈیجیٹل طریقے سے چینل دکھاتی ہے اور وہ 300چینل تک دکھا سکتے ہیں مگر ہمارے لوگوں کے پاس اکثر ٹی وی ایسے ہیں جن میں 100تو کیا 70چینلز کی بھی گنجائش نہیں ،اسی طرح کیبل آپریٹرز نے از خود اپنے علاقوں میں فلمیں اور ٹوٹے دکھانا بھی شروع کر رکھا ہے اور اشتہار بھی لیتے ہیں جو ناجائز ہے اورتمام عوامل بڑے چینلز کی جائز آمدنی پر کاری وار کرتے ہیں۔ ادھرمعیشت کا حال بھی پتلا ہے اور کئی بڑے بڑے برانڈ والی کمپنیوں نے اشتہار آدھے کر دیے ہیں۔ ادھر حکومت بالکل ہی مٹھی بند کر کے بیٹھ گئی ہے تو میڈیا مالکوں سے مل بیٹھ کر اور کچھ لچک دکھاکر کافی حد تک تعاون مل سکتا تھا اور اب بھی مل سکتا ہے۔ خالی ڈرانے دھمکانے سے کیسے کام چلے گا۔ ہاں اگر کوئی ٹی وی بہت ہی قابل اعتراض حرکت کرے تو عدالت میں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ پیمرا بھی موجود ہے اور دوسرے صحافتی ادارے بھی۔ بگڑے ہوئے بچوں کو بہلا پھسلا کررام کیا جا سکتا ہے کیونکہ آج کل سوشل میڈیا بھی ہے اور اپنی بات کہنے کے مواقع بھی ۔اخبارات کو اہم دوروں پر حکومتی خرچ پر لے جانا کوئی اچھی روایت نہیں تھی لیکن ملکی مفاد میں کچھ ملکی مفاد میں کچھ رعایت بنتی ہے صرف کام کے لوگوں کو یہ سہولت دینا چاہیے سیرسپاٹے کے لئے نہیں۔