وزیراعظم عمران خان نے جس طرح خود کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اسی طرح ان کے مداح اور حریفوں نے بھی ان کومتنازعہ بنانے میں حد کردی ہے۔ وہ سیاستدان ضرور بنیں لیکن بائیس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو ایک جید سیاستدان کے طور پر نہیں منوایا۔مثال کے طور پر ہم پہلے خان صاحب کی زبانِ بے لگام کولیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ مار کھاتے آئے ہیں اپنے سیاسی کیریئر میں انہوں نے نہ تو کسی سیاستدان اور حاکم کو معاف کیا اور نہ میڈیا میں اپنے نقادوں کو بخشا۔یہی وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے خان صاحب کی سنجیدہ بات کو بھی آج کل لوگ سنجیدہ لینے سے کتراتے ہیں۔بلکہ سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں تو ان کی تقریروں اور فرمودات کا جس بے رحم طریقے سے تمسخر اڑایا جارہاہے ، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ۔بے شک، سیاست میں اپنے حریفوں کے اوپر تنقید کرنااور ان سے معقول اختلاف رکھنا سیاست کا حُسن سمجھا جاتاہے لیکن خان صاحب نے کبھی بھی اس حُسن کو حُسن رہنے نہیں دیا۔یہی تو بنیادی وجہ ہے کہ آج کل پیپلزپارٹی جیسی کرپٹ ترین جماعت کا پچیس سالہ بلاول بھٹوزرداری بھی ان کو جھوٹاہونے کے طعنے دیتے ہیں اور مسلم لیگ ن جیسی جماعتوںکے لوگ بھی انہیں ایک بہروپیے اور مکار سیاستدان سے کم نہیں سمجھتے۔مخالفین کی طرف سے یہ تابڑ توڑ حملے اور طعنے دراصل عمران خان کے ان رکیک زبانی حملوں کا جواب ہے جو وہ شروع سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کرتے آئے ہیں۔ عمران خان نے سیاست میں ایک غیر سنجیدہ کام یہ بھی شروع کیا کہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کی ایک رسم متعارف کروائی جس کیلئے آج کل’’ یوٹرن‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے ۔اور پھراس کے اوپر ایک اور غلطی کا اضافہ یہ کیاکہ انہوں نے یوٹرن کو جائز بھی قرار دیا اور مستحسن اقدام بھی ،کہ یوٹرن نہ لینے والے لوگ ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ اب اگر ان کے وزراء صاحبان لاکھ ان کی اس غیر سنجیدہ بات کو اسٹریٹیجک ری تھنکنگ اور حکمت عملی کا نام دے دیں لیکن تیر بہر حال کمان سے نکل چکا ہے ۔ اسی طرح ہم اگران کی خوابوں کی دنیا کو لے لیں تو وہاں پر بھی خان صاحب ہروقت متجاوز ثابت ہوئے ہیں۔ بے شک خواب اپنی زندگی میں ہر لیڈر بلکہ ہرانسان دیکھتاہے لیکن خان صاحب کے خواب بلا کے عجیب اور غضب کے نرالے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بے چارے رات کی تاریکیوں میں ان کے پاس چپکے سے آتے ہیں لیکن صبح ہوتے ہی خان صاحب اسے باتوں باتوں میں شرمندہ کردیتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے خوابوںکے معاملے میں کسی ماہر مُعبِر سے رجوع فرماتے اور اسے سناتے ۔ اگرمعبر کے علم کے مطابق خواب کی تعبیر میں خیر کا پہلو زیادہ ہوتا تو اس کو شرمندہ تعبیر ہونے کیلئے وہ اطمینان اور حکمت عملی سے اس کو شرمندہ تعبیر ہونے کی پلاننگ شروع کردیتے ورنہ بصورت دیگر اسے بھلا دیتے ۔لیکن حال یہ ہے کہ خان صاحب اس معاملے میں کسی قسم کے حدود وقیود کا خیال نہیں رکھتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ یہ سامنے آیاہے کہ وہ اپنی زندگی میں ان خوابوں کو بھی شرمندہ تعبیر کرنے کی سعی کرتے ہیں جو بے معنی میں شمار ہوتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے اپنے آپ کو سنجیدہ نہیں لیا اسی طرح ان کے حریفوں نے بھی ان کی مخالفت اور ان کے مداحوں نے ان سے بے محل توقعات وابستہ کرنے میں کسی قسم کی حد کا لحاظ نہیں رکھاہے ۔ان کی مخالفت کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کے الزامات کو لے لیں،جو نہ صرف عمران خان کو اپنا کٹرسیاسی حریف سمجھتے ہیں بلکہ انہیں مغربی قوتوں کا کارندہ ڈکلیئر کیاہے ۔دوسری طرف خان صاحب نے خود کواپنے مداحوںکووقت سے پہلے مسیحائے اعظم اور ایک مدنی ریاست کا معمار باور کرایاہے ۔عمران خان کے بارے میںجتنا مولانا صاحب کے بے سروپا الزامات اور اتہامات سے اختلاف ہے اتناہی ان کے مداحوں کے حُسن ظن سے بھی اختلاف ہے جنہوں نے ابھی ہی سے عمران خان کو ایک سچے مدنی ریاست کا معمار سمجھا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے عمران خان بے شک خواب بھی دیکھا کریں لیکن ان خوابوں کا اظہار کرنے کی بجائے وہ پوری حکمت عملی کے ساتھ اس کوپورا کرنے کی جستجو کریں۔ وہ بے شک اپنے سیاسی حریفوں پر تنقید بھی کریں لیکن ایک حد میں رہ کر وہ بعض مقامات پر قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں یوٹرن بھی لے لیں لیکن کم ازکم اس وصف ِ بدکوتو جواز کاراستہ فراہم نہ کرے۔ انہیںایک ایسے معتدل راستے کا انتخاب کرنا چاہیے جس پر گامزن ہوکر نہ توکسی کو انہیں کسی کا ایجنٹ کے طعنے دینے کا موقع ملے اور نہ ہی ان کے مداحوں کو صرف سودن میں سچ مُچ پاکستان مدینہ جیسی ریاست نظر آئے۔