25جولائی کو واشنگٹن سے واپسی پر جہاں اپوزیشن جماعتیں یوم ِ سیاہ منا رہی تھیں ۔ وہیں تحریک انصاف کے حامیوں نے نہ صرف یہ دن یوم ِ تشکر کے طور پر منایا بلکہ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کی کامیابی پر خوب خوب بھنگڑے ڈالتے ہوئے انہیں’’فاتح واشنگٹن‘‘ قرار دیا۔فاتح واشنگٹن کے دورۂ امریکہ پر ذرا بعد میں با ت ہوگی کہ قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہمارے سارے ہی سربراہان مملکت نے کم و بیش 42دورے کئے۔ہر دورے کو پہلے سے بڑھ کر کامیاب قرار دیا گیا۔18ستمبر کو باقاعدہ حکومت سنبھالنے کے بعد گزشتہ دس ماہ سے ہمارے وزیر اعظم اور انکے مشیر ،وزیر بس ایک ہی کام پر لگے ہوئے ہیں۔قرضے اور مزید ڈالروں میں قرضے تاکہ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے کہ 197ارب ڈالر کے بیرونی قرضے اتارنے کے لئے سا ل بہ سال 50فیصد تو سود کی صورت میں دینے ہی دینے ہیں۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات ،چین اور ہاںایک حد تک قطر کے بعد ایک ’’امریکہ ‘‘ہی ایسا ملک رہ گیا تھا،جہاں کے دورے پر اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے مستقبل کا انحصار تھا۔اورہے۔کہ ہماری ریاست بدقسمتی سے 72سال سے امریکہ بہادر کی طفیلی ہی رہی ہے۔امریکی دفاعی اور معاشی امداد پرانحصار اور اس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ممتاز دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز اپنی کتاب Crossed Swordsمیں لکھتے ہیں :’’بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان میں امریکی نمائندہ لارڈ Ismayسے کہا:’’پاکستان تنہا نہیں رہ سکتااس کو کسی نہ کسی طاقتور ملک سے دوستی کرنا پڑے گی۔‘‘روس سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔انگلینڈ اور امریکہ میں سے اول الذکر فطری دوست تھا۔لارڈ Ismayکے مطابق جناح نے مذاق میں کہا’’جس شیطان کو آپ جانتے ہوں،اس شیطان سے بہتر ہے جس سے آپ نہ واقف ہوں۔‘‘ مسٹر جناح امریکہ کو اچھی طرح نہیں جانتے تھے اس لئے اپنے معتمدخاص ایم ایچ اصفہانی کو پاکستان کا پہلا سفیر بنا کر بھیجا ۔شجاع نواز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،جو بہ زبان اردو ’’بے نیام تلواریں‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے کہ مسٹر جناح نے دنیا میں جاری سرد جنگ اور مسئلہ کشمیر پر بھارت سے محاذ آرائی کے سبب اپنے سفیر کے ذریعے 2کھرب ڈالر کا مطالبہ کیا۔معذرت کیساتھ پہلے مجھے خیال ہوا کہ ترجمے میںملین کی جگہ بلین ڈالر ترجمہ کردیا گیا ہو۔پھر اشاعتی ادارے سے بھی رجوع کیا کہ 2کھرب ڈالر کی رقم تو اُس وقت ہمالیہ پہاڑ سے بلند تھی۔اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو شائد پاکستان کا پہلا بجٹ ایک ارب ڈالر سے بھی کم کا تھا۔۔۔؟ شجاع نواز لکھتے ہیں : ’’امریکی حکام یہ سن کر حیران رہ گئے۔ازالے کیلئے کچھ دفاعی ساز و سامان اور مالی امداد جو 2کھرب ڈالر کے مقابلے میں مونگ پھلی کے برابرتھی،دی گئی ۔بانی ِ پاکستان کے بعد اس نوزائدہ ریاست کا بار ایک وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کوچھوڑ کر۔۔ خود قائد کے مطابق ’’کھوٹے سکّوں ‘‘ پر تھا ۔جن کی ساری تگ و دو کلیموں میںملی زمینوں اور جائدادوں پر تھی۔شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورے کو کوئی 70سال تو ہو ہی چکے ہیں۔پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے لکھی جانے والی سینکڑوں کتابوں میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات اب تک متنازعہ ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو پہلے امریکہ سے دعوت ملی تھی یا سوویت یونین سے۔بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوران تواتر سے اپنی تحریروں میںلکھتے رہے ہیںکہ اصل میں پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز ہی وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے پہلے دورۂ امریکہ سے ہوا کہ وہ ماسکو سے ملنے والی دعوت کو ٹھکرا کر واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ہمارے بائیں بازو کے دانشوران اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ پچاس کی دہائی میں بڑی تیزی سے ماسکو نواز کمیونسٹ پارٹی عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔حتیٰ کہ ،فوج میں ترقی پسند رجحان رکھنے والے اعلیٰ فوجی افسران بھی اُن کے رابطے میں تھے۔اور جسے کچلنے کے لئے بعد میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے ’’پنڈی سازش کیس‘‘کا سہارا لیا۔اب پنڈی سازش کیس ایک الگ پینڈورا بکس ہے جسے آئندہ کیلئے اٹھا رکھتا ہوں۔بہرحال مارچ1951ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل سجاد ظہیر ،فیض احمد فیضؔ اور فوجی جنرل اکبر خان اپنے سولہ ساتھیوں سمیت گرفتار بھی ہوئے اور انہیں لمبی مدت کی سزائیں بھی دی گئیں۔اور یہ سب کچھ امریکہ بہادر کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا۔دفاعی تجزیہ نگاراور دانشور محترم شجاع نواز ،وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورے کے بارے میں ایک اور انکشاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شجاع نواز لکھتے ہیں ’’لیاقت علی خان نے اس دورے سے پہلے ایک نہایت شاطرانہ چال چلی۔انہوں نے اپنے روس کے دورے کا اعلان کیا جبکہ نہرو (بھارتی وزیر اعظم)کے امریکہ کا دورہ کرنے کی بڑی تشہیر ہورہی تھی۔لیکن انہوں نے (روس کے دورے کے بجائے)اسے تبدیل کرکے امریکہ کے دورے کا پروگرام بنا لیا۔بعد میں پتا چلا کہ روس لیاقت علی خان کے دورے کو مسلسل ٹال رہا تھا۔جس کی وجہ سے لیاقت علی خان نے ایسا کیا اور صدر ٹرومین کی دعوت قبول کرلی۔اس دورے میں ان کی پُر کشش بیگم رعنا لیاقت علی خان ،بہترین سفارت کار سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ اور امریکہ میں سفیر ایم ایچ اصفہانی ان کے ہمراہ تھے۔وزیر اعظم کے وفد نے اجتماعی طور پر امریکی حکام پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کمیونزم کے خلاف جنگ میں اس کا شریک کار ہے۔وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اس بیانیہ کو اس لئے بھی پذیرائی ملی کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو ان دنوں تیسری دنیا کے غیر جانبدار ملکوں کے قائد کے طور پر خود کو منوانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔شجاع نواز لکھتے ہیں:’’ٹرومین (امریکی صدر) اور نہرو (بھارتی وزیر اعظم)کا مزاج ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔اس ملاقات کے بعد امریکہ نے اپنی توجہ بھارت سے ہٹالی اور ہر قسم کی امداد سے معذوری کا اظہار کیا۔یہی نہیں ،بلکہ امریکہ نے اقوام متحدہ میں بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنی فوجیں کشمیر سے ہٹالے۔یقینا وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اس پہلے دورۂ امریکہ کی بڑی کامیابی تھی کہ اُس وقت پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں سپر پاور امریکہ کی معاشی اور دفاعی امداد کی شدید ضرورت تھی۔ایک حد تک امریکہ نے یہ امداد دی بھی ۔دعویٰ سے تو نہیںلیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ’’بھارت کے وہ حکمراں اور دانشور ‘‘ جو پاکستانی ریاست کی چند سال میں ہی ناکامی کی پیشنگوئیاں کرتے نظر آتے تھے۔یقینا بہت مایوس ہوئے کہ اُس وقت تک سپر پاور امریکہ ہماری انگلی پکڑ چکا تھا۔اور جس کے سبب ایوب خان کی حکومت آتے آتے بہر حال پاکستان ایک مستحکم معاشی و دفاعی قوت بن چکا تھا۔اب یہ ایک الگ طول طویل موضوع ہے کہ یہ کیا آگے چل کرگھاٹے کا سودا ثابت ہوا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند وزیر اعظم عمران خان کو امریکہ بہادر کی معاشی اور دفاعی امداد ہی نہیں سرپرستی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو 69سال پہلے تھی؟ عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں (ختم شد)