بنی گالہ میں ناراض کارکنوں کا اجتماع ہم نے ویڈیو پر دیکھا، عید کا تیسرا دن تھا۔ عمران خان علیم خان کے چارٹرڈ طیارے پر عمرہ کر کے لوٹے تھے اور ادھر وہ کارکنان تحریک انصاف کے جو انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے عمران خان کے جلسوں میں پچھلے بیس برسوں میں دریاں بچھاتے اور دھرنوں کو آباد کرتے آئے تھے۔ اب کے عمران خان زندہ باد کہنے نہیں، یہ شکایت لیے آئے تھے کہ کپتان! ٹکٹ انہیں ملے جو شریک سفر نہ تھے۔ عمران سیاہ چشمے میں انہیں تسلی دیتے رہے کہ ہم ریویو (نظرثانی) کریں گے اور انصاف کے ساتھ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کرکریں گے۔ کوئی پوچھے تحریک انصاف میں انصاف اور ناانصافی کا مسئلہ اٹھا ہی کیوں؟ یہ نوبت ہی کیوں آئی کہ کارکنوں کو ٹکٹ دینے میں ہیر پھیر، دھاندلی وغیرہ کے نام پر بنی گالہ تک آنا پڑ گیا۔ وہ چوبیس برسوں سے تبدیلی کا خواب آنکھوں میں لیے عمران کی قوت بازو بنے ہوئے تھے، انہیں چھوڑ کر، بھول کر Electable کیوں بھا گئے۔ وہ Electable جو ہر بار جیتی ہوئی یا جیتنے والی پارٹی کے ساتھ ہو لیتے ہیں، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے لیے۔ جو ہر تبدیلی کی راہ کی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ جو اپنی خوشامد اور چاپلوسی سے ہر لیڈر کے گرد گھیرا ڈال کر اس کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں جو لیڈر کو یقین دلا دیتے ہیں کہ اس جیسا مرد آہن تو اس ملک میں کبھی آیا ہی نہیں۔ جو سب کے سامنے بغیر شرمائے گھگھیا کر بتاتے ہیں سر! آپ ہی تو وہ نجات دہندہ ہیں جس کا قوم کو انتظار تھا اور مکھن میں کم بخت ایسی چکناہٹ ہوتی ہے کہ لیڈر کو پھیلتے دیر کب لگتی ہے۔ بیس برسوں میں کارکنان نہیں تھکے مگر عمران خان تھکے نہیں تو عجلت پسندی کا شکار ضرور ہوئے۔ انہیں کس نے یقین دلا دیا ہے کہ حکومت اب نہیں ملی تو کبھی نہیں ملے گی۔ لہٰذا حکومت ہر قیمت پر۔ یہاں تک کہ اس تبدیلی اور انقلاب کی قیمت پر بھی جس کا چرچا کرتے عمران خان کی زبان کبھی نہیں تھکی۔ بے چارے کارکنان اور ان کے وہ حامی جنہوں نے جھوٹے، وعدہ فراموش، بے ایمان اور دہن دولت کے پجاری لیڈروں سے قوم کی جان چھڑانے کے لیے عمران خان کو تبدیلی کا نشان جان کر انہیں اپنا ہیرو اپنا رہنما بنایا تھا۔ وہی عمران جو ٹیلی ویژن پر آ کر کہتے رہے تھے کہ ان کی پارٹی دوسری پارٹیوں کی طرح نہیں، اور نہ میں دوسرے لیڈروں کی طرح ہوں۔ میں ان کی پچ پر نہیں کھیلوں گا۔ الیکشن جیتنے کے لیے وہ سب کچھ ہرگز نہیں کروں گا جودوسرے لیڈر اور دوسری پارٹیاں کرتی آئی ہیں ورنہ مجھ میں اور دوسروں میں فرق ہی کیا رہے گا؟ لیکن جو عمران کو نہیں جانتے، انہوں نے دیکھ لیا کہ عادت کے عین مطابق جیتنے سے پہلے ہی انہوں نے نائنٹی ڈگری میں یوٹرن لے لیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ مغربی ماحول اور مغربی دنیا کی آب و ہوا اور ان کی تعلیم میں یہ نقص تو بہرحال ہوتا ہی ہے کہ آدمی موقع پرست اور مفاد پرست نہ بھی ہو تو فوری فائدے سے فائدہ اٹھانے میں چوکتا نہیں۔ مغرب جو عملیت پسندی سکھاتا ہے۔ حقیقت پسندی سے جڑ جانے کا جو درس دیتا ہے، وہ ساری ایمان داری اور کردار کی مضبوطی کے باوجود کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی تو اپنا رنگ دکھاتا ہی ہے۔ اس کے نتیجے میں شکست اور ہزیمت ہاتھ آئے تو اعلانیہ معافی مانگ کر اپنا دامن صاف کرلینا بھی اسی تربیت کا حصہ ہے اور یہ فن عمران خان کو خوب آتا ہے۔ چونکہ اپنی غلطی کا اعتراف اور اس سے رجوع ہمارے روایتی سیاست دانوں کو نہیں آتا اس لیے عمران کا یہ وصف اور یہ خوبی بھی اچھی ہی لگتی ہے۔ ورلڈ کپ جیت کر جذباتی ہو کے فتح کا سہرا انہوں نے جب صرف اپنے سر باندھا تو تنقید و اعتراضات کو درست مان کر انہوں نے قوم سے معافی مانگ لی۔ جنرل پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے اور ان کے ریفرنڈم میں کھل کر ان کی حمایت کرنے کے بعد جب مایوس ہوئے تو اپنی حمایت کے فیصلے سے رجوع کیا اور قوم سے پھر معافی مانگ لی۔ ہم ان کی ازدواجی زندگی کی بابت غلط فیصلوں اور ان سے ایک سے زائد بار رجوع کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ یہ ان کا ذاتی اور قطعی پرائیویٹ معاملہ ہے۔ یہ الگ بات کہ عمران خان مغرب کے پروردہ ہیں وہ اپنے قومی رہنمائوں کے پرائیویٹ معاملات کو بھی نہیں بخشتا اور ان کا تصور ہے کہ جس لیڈر کے پرائیویٹ معاملات ٹھیک ٹھاک نہ ہوں، پبلک معاملات میں اس کی سوجھ بوجھ پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم مشرقی لوگ ہیں اور مشرق میں لیڈر کے پرائیویٹ ہی نہیں پبلک عیوب اور خامیوں و خرابیوں کو نظر انداز کرنے اور اس کے وعدے وعید پرآنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی بڑی مضبوط روایت ہے یا یوں کہہ لیں کہ ہماری عادت ہے کہ لیڈر کی اخلاقی برائیوں کو خاطر میں نہیں لاتے کیونکہ لیڈر اگر محبوب ہو تو محبوب کا عیب بھی اس کا حسن ہوتا ہے۔ جس طرح محبوب کی بے وفائی بھی عاشق کواس سے بدظن نہیں کرتی۔ محبوب لاکھ دھتکارے مگر عاشق اس کے کوچے کے طواف پر خود کو مجبور پاتا ہے، ویسے ہی ہمارے ہاں لیڈر لاکھ وعدہ فراموش، بے وفا اور لٹیرا یا ظالم ہو۔ عوام اگر اس کے پرستار ہو جائیں تو پرستش میں اور پوجا پاٹ سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ اس کے ہر عیب اور ہر برائی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ کیا ہمارے عمران خان کا بھی یہی معاملہ ہے؟ اگر یہی معاملہ ہوتا تو بنی گالہ میں ناراض کارکنان کا اجتماع ہوتا ہی کیوں؟ عمران خان کو اپنے اور دوسرے لیڈروں میں فرق کو جان لینا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے حامی ملک کے ناخواندہ اور بے شعور عوام نہیں ہیں۔پچھلے پندرہ بیس برسوں میں جو نوجوان ان کے ساتھ ہیں، وہ تعلیم یافتہ اور جذباتی نوجوان ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو ان کے لیے سڑکوں سے سوشل میڈیا تک ان کی حمایت میں نہایت جذباتیت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ یہ نوجوان ہرگز ان کی شخصیت کے سحر اور کرزما کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اس لیے ان کے ساتھ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران ان کے بگڑے ہوئے ملک کی تقدیر سنواریں گے، بدعنوانیوں کا خاتمہ کریں گے، قانون کی بالادستی قائم کریں گے، عام آدمی کو انصاف ملے گا، طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہو گا اور قانون کے محافظ، قانون کے صحیح معنوں میں رکھوالے ہوں گے۔ یہ وہ وعدے ہیں جو عمران اپنی تقریروں اورانٹرویوز میں سالہا سال سے کرتے آئے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے مقابل کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو ملک کو سنوارنے کے لیے اتنا واضح وژن رکھتا ہو، کوئی ایسا سیاسی رہنما بھی نہیں جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوامی خدمت کے ایسے نمایاں کام کئے ہوں جو عمران کے کریڈٹ پر ہیں اور نہ پھر کسی لیڈر نے گردن گردن تک کرپشن میں ڈوبی حکومت کے خلاف اتنی مستقل مزاجی اور جی داری سے مسلسل آواز اٹھائی ہو جیسی آواز انہوں نے اٹھائی۔ یہ وجوہات ہیں جس نے ان کی ذات سے نوجوانوں کی امیدوں کو وابستہ کردیا اور وہ ان کے اندر ایک ’’نجات دہندہ‘‘ دیکھتے ہیں۔ ان کے حامیوں کی اکثریت اندھی، بہری اور گونگی نہیں جو عمران خان کو سب کچھ کرنے کے لیے کلین چٹ دے دے اور ہمارا گمان یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی مقبولیت اور اپنے حامیوں کی بابت بہت غلط اندازے قائم کئے۔ غالباً اپنی ہر دلعزیزی کے معنی وہ یہ سمجھے کہ پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے وہ جو کچھ کریں گے، پارٹی ورکرز دوسری پارٹیوں کی طرح آنکھ بند کرکے اسے قبول کرلیں گے۔ انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’فسطائی لیڈروں‘‘ کا تجربہ عوام پہلے ہی ایک سے زائد بار کر چکے ہیں اور ان کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ یہ نہ ستر کی دہائی ہے اور نہ اسی کی۔ یہ اکیسویں صدی ہے جب دنیا بدل چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی، ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز پیش رفت اور اس تک عام آدمی کی رسائی نے لوگوں کے شعور اور ان کے انداز فکر ہی نہیں ان کے رویوں کو گہرے طریقے سے متاثر کیا ہے۔ اب لوگ ماضی کی طرح نہ گونگے ہیں اور نہ ذہن ان کا بانجھ ہے کہ لیڈر جو چاہے کرے اور وہ ’’زندہ باد‘‘ اور ’’جیوے جیوے‘‘ ہی کے نعرے لگاتے رہیں۔ بنی گالہ میں بیٹھے کارکنان کی شکایت سوفیصد بجا ہے اور ہم سلام کرتے ہیں، ان کارکنوں اور حامیوں کو جنہوں نے نام نہاد Electable کو انتخابی ٹکٹ دینے پر کھلے بندوں تنقید و احتجاج کو اپنایا ہے۔ اگر ساری پارٹیوں کے کارکن اسی طرح اپنی پارٹیوں اور لیڈروں کو راہ راست پر رکھنے پر کمر بستہ ہو جائیں تو لیڈروں کو عوام کو بھول کر (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ رہی بات ایسے نوواردان پارٹی کو ٹکٹ دینے کی‘ کہ انہیں یقینی کامیابی کی لالچ میں ٹکٹ دیا گیا ہے کیونکہ ہماری جمہوریت میں کامیابی کا یہی واحد راستہ ہے۔ یہ جواز کم سے کم وہی لوگ پیش کرسکتے ہیں جو ملک کی سیاسی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ بھٹو صاحب نے ستر کے انتخابات میں ایسے لوگوں کوٹکٹ دیئے تھے جو عوام کے لیے قطعی اجنبی تھے لیکن سیاسی اصطلاح میں ان ’’کھمبوں‘‘ نے بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست فاش دی۔ اس کے برعکس جب انہوں نے 77ء کے انتخابات میں جیتنے کے لیے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو امیدوار بنایا تو انہیں اکثر نشستوں پر دھاندلی کاطریقہ اپنانا پڑا۔ جس نے آخر کار ان کی حکومت کا تختہ ہی نہیں الٹا، ملک سے جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بھی برسوں تک متوسط طبقے کے گمنام لوگ ہی جیتتے رہے۔ سیاست کی ڈائنامکس روایتی ہتھکنڈے اختیار کرنے والے ان لیڈروں کو شکست سے دوچار کردیتی ہے جو عوام کے لیے امید کی کرن ہوں۔ عوام پر ہی اعتماد اور ان ہی پر بھروسہ کسی پارٹی کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ محض جیتنے کے لیے اخلاق باختہ، بدنام اور ناقابل اعتبار لوگوں کو ٹکٹ دینا کم سے کم ارمانوں اور آرزوئوں پر ضرور اوس ڈال دیتا ہے اور بجا طور پر لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جن سے جان چھڑانے کے لیے ہم نے پارٹی کی خاطر خون پسینہ ایک کیا تھا کیا پارٹی ان ہی عناصر کو پھر اقتدار میں لائے گی؟ کیا یہ عناصر ایک بار پھر لیڈر اور پارٹی کو یرغمال بنا کر اس تبدیلی کاراستہ نہ روک دیں گے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا۔ عمران خان صاحب! سنبھل کے۔