وہ بھی اچکزئی تھے یوںدیگر اچکزئیوں کی طرح ان کے سامنے بھی نارمل زندگی گزارنے کا خاصااچھاآپشن موجودتھا۔وہ تجارت میں وقت لگاتے تو بڑا مال اکٹھا کرتے۔ گلہ بانی اور زراعت کے پیشے سے منسلک ہوتے تب بھی زندگی آسودہ اور پرآسائش گزرجاتی۔انگریز سرکار سے وفاداری تو اسی زمانے کا بہترین انتخاب ہواکرتاتھا لیکن اس بدقسمت اچکزئی نے اس نوعیت کی بہترین نوکری کوبھی قبول نہیں کیا ۔ کیوں ؟ کیونکہ انہوں نے خود کو اپنی ذات سے بے نیاز کردیاتھا۔نام بھی ان کا ’’عبدالصمد‘‘ تھا یعنی بے نیاز ذات کا بندہ ۔عبدالصمدخان اچکزئی نے کل چھیاسٹھ برس عمر پائی اور ان چھیاسٹھ سالہ زندگی کے لگ بھگ پچاس سال انہوں نے انتہائی کٹھن حالات میں گزارے۔ بارہ تیرہ سال کی ناپختہ عمر میں وہ باطل کے خلاف میدان میں کھود پڑے تھے ۔کبھی افغانستان میں غازی امان اللہ خان حکومت کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں کو چیلنج کرتے تو کبھی تحریک خلافت میں سرگرم نظرآتے ۔گوکہ خان عبدالصمدخان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی-خان شہید ایک ہمہ جہت مزاحمت کار تھے کیونکہ انہوںنے باطلِ وقت کے خلاف نہ صرف سیاسی مزاحمت کو کافی سمجھا بلکہ انہی قوتوں کے استعماری اور استحصالی ہتھکنڈوں کے خلاف آپ قلمی جہاد کے میدان میں بھی پیش پیش رہے۔ ون یونٹ جیسے عوام دشمن یونٹ کے خلاف میدان میں اترتے ہیں تواس جرم کی پاداش میں بھی وہ ملک کے تعزیراتی دفعات کے تحت پابندسلاسل ہوتے ہیں۔1958ء میں ایوبی مارشل نافذ ہواتو خان شہیداس آمرانہ جارحیت کے خلاف مزید فعال اور سرگرم ہوئے جس کے نتیجے میںبالآخر انہیں دس سال کی طویل ترین قید جھیلنا پڑا۔ خان عبدالصمدخان شہید نے قلمی اور صحافتی میدان میں قومی وملکی خدمت کی ٹھانی توسب سے پہلے استقلال نامی جریدے کا اجرا کیا۔ ’’پیام جدید‘‘ کے نام سے ایک اخبار اور ’’پشتو‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیالیکن بہت جلد ان مطبوعات پر بھی پابندی لگوادی گئی ۔خان شہیدکوزبانوں میں اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی ، فارسی، سندھی اور بلوچی زبان پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔مادری زبان کی خدمت کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ اس میدان میں بھی قابل رشک کام کرچکے ہیں۔پشتوزبان کے مخصوص لہجے کی رسم الخط متعارف کروانے کیلئے انہوں باقاعدہ ایک لغت نامہ لکھ ڈالا۔پشتوزبان میںنہ صرف مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی اور گلستان سعدی جیسی کتب ترجمہ کیے بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی شاہکار تفسیر ترجمان القرآن کاترجمہ بھی کیا -سماجی میدان میں بھی خان شہید کی خدمات بھی کسی سے مخفی نہیں ،کیونکہ خان شہید ہی تھے جنہوںنے جاہل پشتون سماج میں دین کے نام پر سرایت کرنے والی غلط اور توہم پرستانہ روایات کے خاتمے کیلئے انجمن وطن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔زما ژوند او ژوندون (میری زندگی وزندگانی )ان کی تین جلدوں پرمشتمل خود نوشت ہے جسے پڑھ کر قاری پہلی فرصت میں ان کے عالی خیالات، فہم و فراست، دیانت اوربشر دوستی کاقائل ہوجاتاہے۔ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں جب انہوں نے نیپ سے راہیں جدا کیں تو 1970ء میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نام سے باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جو تاحال ملکی سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ستر کے عام انتخابات میں پشتونخوامیپ کے پلیٹ فارم سے وہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔تین سال بعددودسمبر 1973کوایک یخ بستہ رات کی تاریکی میںعیار دشمن نے انہیں کوئٹہ میں اپنے گھر میں شہید کرکے ان سے برسوں کاانتقام لے لیا۔خان عبدالصمدخان شہید کا مطلق جرم یہ تھا کہ وہ پوری زندگی حق کے متلاشی اور انصاف کے طلبگار رہے تھے۔ اس بارے میں پروفیسردرویش درانی کی ایک شاہکار پشتو نظم خان شہید کی لیگیسی کی بھرپوری عکاسی کرتی ہے جویہاں مختصر اردوترجمے وتلخیص کے ساتھ قارئین کیلئے حاضرہے ۔ لحدہ! نیسہ ئے کرار پہ غیژ کی یوزہرہ چاودے اوخوژمن درسپارو دائے گناہ وہ چی نہ پریشوول پرخپل آسمان باندی دبل لمرونہ ترجمہ:اے لحد!ہمارے اس شہیدکو اپنی آغوش میں آرام سے سلانا جن کے خون آلودجسدپردشمنوں نے لامتناہی زخم لگائے ہیں۔ہمارے شہیدکا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے فلک پر پرائے سورج کو برداشت کرنے کا روادار نہیں تھا۔خود ان کی زندگی تاریکیوں میں بسرہوئی لیکن دوسروں کے لئے وہ پوری زندگی اُجالوں کا اہتمام کرتارہا۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنا اس کی زیست کا نصب العین تھا۔اس کی سچائی اور برحق موقف کے سامنے جب فراعنہ وقت بے بس ہوگئے تو ان کو راستے سے ہٹانا ناگزیر سمجھا‘‘۔