میرا تو یہ خیال تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنی پارٹی کے اندر کارکنوں کی محبتوںاور لاڈ سے سے محروم ہوکر رہے گا لیکن میرا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کے چاہنے والے اب بھی ان سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔وہ خوش قسمت ہیں کہ لاکھوںکی تعداد میں لوگ اب بھی ان کی آواز پر لبیک کہہ کرپورے جوش وجذبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل رہے ہیں ۔ اقتدار سے محرومی کے بعدانہوں نے پشاور ، کراچی اور لاہور میں کامیاب جلسے منعقد کیے جن میں عوام کا جم غفیر دیدنی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت عمران خان کوایک اور موقع دے رہی ہے اور شاید آخری موقع۔اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا پائیں گے ،ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر خود کو مین سٹریم سیاستدان میں تبدیل کرواسکتے ہیں یا نہیں؟ مین سٹریم سیاستدان سے میرا مطلب ایک سنجیدہ سیاستدان ہے۔ ایک ایسے سیاستدان جن کی بات زبانِ حال سے واقفیت رکھتی ہو ، جو انانیت، نرگسیت سے بہت حد تک بری ہو اور خود کو عقل کُل نہ سمجھے، علیٰ ھٰذاالقیاس۔ عمران خان میں بدقسمتی سے یہ سبھی کمزوریاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔وہ بہت بولے اورتھوک کے حساب سے لیکن تول کرکبھی نہیں بولے۔ یوں آئے روز انہیں اپنی کہی ہوئی بات پر پچھتانا پڑتا۔ہمارے ہاں سیاست میں بے سر وپا الزامات نے جگہ بنائی تھی لیکن خان صاحب نے اس مقدس پیشے میں الزامات کے ساتھ ساتھ مغلظات کو بھی عام کروادیا۔آخری دن تک وہ اسی طرز سیاست سے جڑے رہے اور مخالفین کو منافقین ، چوراور ڈاکو جیسے القابات سے نوازتے رہے ۔مستقل مزاجی اور ہٹ دھرمی میں زمیں آسما ن کا فرق ہے لیکن خان صاحب آخر تک اس کے بیچ فرق کوسمجھ نہیں پائے۔ مثلاً تین اپریل کو انہیں عین الیقین ہوچکا تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا میاب ہونے والی ہے لیکن انہوں نے اس عمل کو احسن طریقے سے آگے لے جانے کے بجائے انتہائی پیچیدہ بنادیا۔وہ ہٹ دھرمی کی اس انتہا پر پہنچ گئے کہ آخر کار انہیں وزیراعظم ہاوس سے نکلنا پڑا۔وہ عوام میں گئے اور انہیں خوب پذیرائی بھی ملی لیکن ا یسا لگ رہاہے کہ وہ مزید بھی اپنے چاہنے والوں کو سبزباغ دکھانے کے موڈ میں ہیں۔ تین اپریل کو رخصتی کے بعد اگلے روز انہوں نے بڑے قابل رحم انداز میں پہلا کارڈ یہ استعمال کیا کہ گویا امریکہ کو ان کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی یوں ایک طویل سازش کے ذریعے اس نے اپوزیشن جماعتوں کو ان کے خلاف مورچہ زن کروایا۔ نام نہاد سازشی پرچے کو ہوا میں لہراتے ہوئے انہوں کو خود کو ذوالفقار علی بھٹو ثانی باور کروانے کی کوشش کی ۔دو ہفتے بعد اس پرچے کی مارکیٹ ماند پڑگئی تو سیالکوٹ کے ایک اجتماع میں انہوں نے عوام کے سامنے دوسرا کارڈ سامنے لایا جس میں گویا ان کے قتل کی منصوبہ بندی پر عمل درآمدشروع ہوناتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالف اور دشمن قوتیں ان کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں تاہم وہ پہلے ہی سے ایک ریکارڈکردہ ویڈیو کی شکل میں قاتلوں کی مکمل نشاندہی کرچکے ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس تقریر میں پہلے وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ ویڈیو ریکارڈ کروائی ہے لیکن آگے چل کر وہ ویڈیو یہ کمپنی بھی جب نہیں چلی تو ہمارے خان صاحب نے چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک اور کارڈ کھیلا ۔ان کا دعویٰ تھا کہ اگر ملکی ا سٹبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کردیتاہوں کہ فوج تباہ ہوگی اور ملک تین ٹکڑے ہوکر رہے گا‘‘۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے فیصلے ملک کو انارکی کی طرف لے جاسکتے ہیں ،بلکہ خود عمران خان ہی کو لانا اس کے ایک فاش غلطی کی ایک بین مثال تھی جس کا خمیازہ اس وقت نہ صرف پوری قوم بھگت رہی ہے بلکہ سٹبلشمنٹ بھی اپنے اس فیصلے پر نادم ہے۔لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان نے ان خدشات کا اظہار اس وقت کیوں نہیں کیا جب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تھے ؟کیا اسٹبلشمنٹ اس وقت صراط مستقیم پر چل رہی تھی جب وہ خان صاحب کی پشت پناہی کررہی تھی ؟ تین سال برسر اقتدار رہے لیکن کھوکھلے دعووں، ہوائی باتوں ، مخالفین پر برسرِ بازاربہتان ترشی کرنے کے علاوہ انہوں نے آخر وہ کونسا تیر مارا؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ ایک پاپولسٹ سیاستدان تھے۔ زمینی حقائق پر یقین رکھنے کے بجائے وہ خود بھی ایک یوٹوپیائی دنیا میں رہتے ہیں اور اپنے لاکھوں مداحوں کو بھی ایک خیالی جنت کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔بظاہر ملک اور عوام کی زبوں حالی کے بارے میں ماضی کے کسی بھی پاکستانی حکمران سے فکر مند اور مضطرب تھے لیکن مرورِ ایام نے ثابت کردیا کہ وہ ملک اور قوم سے زیادہ اقتدار سے وفادار تھے۔ اتنا وفادار کہ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کے باوجود بھی وہ گُل محمد بنے ہوئے تھے ’’زمیں جنبش ، نہ جنبش گُل محمد ــ‘‘۔جیسے کہ میں نے اپنے کالم کے شروع میںعرض کیا تھااور مکرر عرض ہے کہ عمران خان کو قدرت نے ایک اور موقع دیا ہے یوںوہ اپنی جماعت ، پچیس سالہ سیاسی کیریئراوراپنے لاکھوں مداحوں پر رحم کرکے خود کو مین سٹریم سیاستدان بنالیں ، ورنہ ناشکروں کوپہنچنے والا عذاب شدید ہوتا ہے ۔