سینٹ انتخاب کا ڈرامہ اسلام آباد میں دیکھا‘نتائج واپس لاہور آتے ہوئے، موٹروے پر سنے‘ جمعتہ المبارک کی سہ پہر لاہور سے واپس فیصل آباد پہنچا،تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی‘دوسری طرف چوہدری ظفر اقبال آف پھلاہی تھے‘ ظفر اقبال کے ساتھ پہلی ملاقات 1968ء گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ہوئی‘ وہ کالج کی اولین جماعت میں ہمارے ساتھ تھے۔ یعنی ہمارے ہم جماعت۔ ہم جماعت سے مراد کلاس فیلو ‘ جماعت اسلامی یا جمعیت کی رکنیت نہیں۔ خالص دیہاتی جاٹوں والی پاٹ دار آواز اور بے تکلفی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی ساتھ رہا اور ہاسٹل میں بھی۔ بولے ‘ آپ کہاں ہیں؟بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی‘ آئیے کچھ دال ساگ مل کر کھاتے ہیں۔ کہا‘ آج نہیں‘ عموماً جمعہ کی شام کالم لکھتا ہوں‘ آج فارغ ہو جائوں گا تو ملتے ہیں۔ بولے‘ عمران خاں کو اس جرأت مندانہ فیصلے پر شاباش کہیے‘تحسین کیجیے اور ہمارا سلام لکھئے۔ وہ آئے روز حیران کیے دیتا ہے۔ حیران کرنے میں ان کی ذہانت کے مقابلے میں دلیرانہ فطرت کو زیادہ دخل ہے۔ واقعی ’’شیر کی ایک روزہ زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ کہنے کو تو ملتان کا گیلانی بھی وزیر اعظم رہ چکا ہے‘بظاہر اس نے پی ٹی آئی کو شکست دی،مگر اس کے فاتح بلکہ فاتحین کے حصے میں کیا آیا؟گالی‘ پھٹکار‘ عوام کا غصہ‘ خیر چھوڑیے۔ یہ کہیے کہ کیا یہ سب خلاف توقع تھا یا امیدوں کے خلاف؟نہیں‘یہ توقع کے مطابق ہے اور خلاف بھی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ خلاف بھی ہے اور مطابق بھی؟خلاف یوں کہ صرف تین دن پہلے تک مجھے یقین تھا کہ قومی اسمبلی میں پڑنے والے ووٹوں کے نتائج چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے مختلف نہیں ہوں گے مگر اگلے ہی روز زرداری کی اسلام آباد آمد اور گیلانی کے بیٹے حیدر کی طرف سے گھوڑوں اور گھوڑے نما خچروں کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو آنے کے بعد سب جان چکے تھے کہ اب وہی ہو گا جو پچھلے سینٹ انتخاب میں خیبر پختونخواہ میں ہوا یا وسیم سجاد اور فاروق لغاری صدارتی انتخاب میں کیا گیا تھا، جس کی روداد دو تین ہفتے پہلے انہی صفحات پر لکھی جا چکی ہیں۔ چوہدری ظفر اقبال سے گفتگو ہوئی تھی کہ پشاور سے سید جمال حسنین کا فون آیا‘سلام و دعا‘ بولے‘ آپ اپنی رائے دیجیے کہ کل قومی اسمبلی میں کیا ہونے جا رہا ہے‘ کیا وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے پائیں گے یا پھر وہی ہو گا ،جو تین مارچ کو ہوا۔ کہا اندازہ تو یہ ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی دقت نہیں ہو گی لیکن دعا ہے کہ بکائو اور ان کے خریدار پھر سے جیت جائیں اور قوم کو نئے انتخاب میں جانا پڑے تو یہ بہت بہتر ہے بلکہ سب اچھا ہو جائے گا۔ اگر آپ اخبارات کے کالم ‘ ٹی وی پر تجزیے اور سوشل میڈیا کا رجحان دیکھیں‘ اس وقت نوجوان بہت سرگرم ہو گئے ہیں‘غصہ انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے ڈالر اور ترک خاتون اول کے ہار کی چوری اور اس کی برآمدگی مقبول ترین رجحان بن گئے‘ان حالات میں اگر نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے تو عمران خان کے ہاتھ ترپ کا پتہ آ جائے گا۔ مہنگائی‘ معاشی حالات اور جو کچھ بھی منفی پراپیگنڈہ حکومت کے خلاف کیا گیا ہے وہ فوراً دم توڑ جائے گا۔ چوری ‘ڈاکے‘منی لانڈرنگ‘ دوسرے ممالک میں جائیدادیں زیر موضوع ہونگی۔ عمران خان باہر نکلیں گے تو جلسوں کے میدان اور سڑکیں انسانی سروں سے بھر جائیں گی۔ انتخابات کے نوے دن میں کپتان کی تقریریں اور نوجوانوں کا جذبہ ایک نیا طوفان کھڑا کر دے گا‘ عمران خان کہے گا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ سارے چور اکٹھے‘گندے انڈے ایک ٹوکری میں ہیں‘ مجھے پاکستانی عوام نے لنگڑی لولی حکومت سونپی‘ واضح اکثریت نہیں ہے کہ ڈھنگ کی قانون سازی کروں اور مرضی سے آزادانہ فیصلے‘ اب اس کا رخ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہو گا۔ وہ اس نظام پر تبراکرے گا‘ دو تہائی اکثریت مانگے گا‘ کہے گا کہ آپ اگر واقعی سیاست کے گند کی صفائی اور نظام میں انقلابی تبدیلی چاہتے ہو،تو میری مدد کرو تاکہ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترامیم کروں‘ مؤثر قانون سازی کر کے صدارتی نظام کے لئے ریفرنڈم کروائوں۔ آئین اور نظام کو بدل کر ان منحوس ‘ بلیک میلروں‘کمیشن خوروں اور قبضہ مافیا سے نجات دلائوں اور بلدیاتی اداروں کو مالی‘ انتظامی اختیارات سونپ کر بنیادی جمہوریتوں کو نافذ کروں‘میں اگر یہ سب کچھ پانچ برس میں نہ کر سکا تو اگلے انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گا۔ میرے پاکسانیو!آپ کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کے خاطر ایک چانس لینا اور مجھے ایک موقع دینا ہو گا‘ میں یقینا کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ اب تک میری بے بسی یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن سمیت ملک کے اعلیٰ اداروں میں انہی کے تعینات کیے لوگ بیٹھے ہیں، ان کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنا ہے جو اگلے برس ڈیڑھ برس میں فارغ ہو جائیں گے۔مجھے عوام کی بھلائی اور حکومت کو طاقتور بنانے کے لئے آزادانہ فیصلوں کا موقع ملے گا۔ اس بیانئے کے مقابلے میں بان متی کا کنبہ کچھ کر پائے گا نہ کہہ سکے گا۔ اس کے جلسوں کی رونق اور جلوسوں کی شدت کے بپھرے ہوئے دھارے میں سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔اس سے اچھا موقع عمران خان کو پچھلے پچیس برس میں کبھی ہاتھ نہیں آیا نہ آنے کی امید ہے۔ پاکستان کے ارباب بست و کشاد پارلیمانی طرز حکومت سے پہلے ہی بیزار بیٹھے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کے پاس فی الوقت عمران خان کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ اردگرد کے دوست ممالک اس پر ریجھ گئے ہیں‘ بیرون ملک پاکستانی عمران خان پر روپیہ اور اندرون ملک اپنے احباب اور خاندانوں کے ووٹ نچھاور کر دیں گے۔ ملک کے پیشہ ور طبقات پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ مؤثر طبقات یعنی صنعتکاروں‘دکانداروں اور کاروباریوں کو تین دہائیوں کے بعد سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے‘ وہ اسے ہاتھوں سے جانے نہیں دیں گے۔ یہ سب نہیں چاہیں گے کہ پھر وہی لوگ ان کے سروں پر مسلط ہو جائیں جو گورنر ہائوسز‘ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس میں بلا کر بھتے وصول کیا کرتے تھے‘ اس پر مستزاد یہ کہ وزیر اعظم اسمبلی توڑے یا کسی دوسری صورت میں انتخاب کی نوبت آئے تو صوبائی حکومتیں برقرار رہیں گی۔ پنجاب ‘ پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور بلوچستان میں بھی اتحادیوں کی حکومت ہو گی۔ پہل کاری (Initiative)عمران کے ہاتھ میں ہو تو وہ یقینا اپنے حریفوں کو دھول چٹا دے گا۔ اس لئے کہتا ہوں کہ عمران خان کو ووٹ نہ ملے تاکہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے غداروں اور اٹھائی گیروں کو انجام دکھائے۔ اعتماد کا ووٹ ملنے پر بھی اسے اختتام مدت سے پہلے الیکشن میں جانا ہو گا‘ یقینا دھوکہ دینے اور بک جانے والوں کا انجام خیبر پختونخواہ کے بیس ممبران اسمبلی سے بھی بھیانک ہو گا مگر یہ کافی نہیں‘ اب نظام کو بدلنے اور بانیان پاکستان کی آرزوئوں کے مطابق پاکستان کو بہترین جمہوری اور اخلاقی روایات پر استوار کرنے کا وقت ہے‘ تحریک انصاف کی اڑھائی سالہ حکومت میں اس کے نظریاتی کارکن منہ پھیر کے نہیں گئے مگر چھپ سادھ کر بیٹھ گئے تھے‘ حالیہ واقعات نے انہیں پھر سے سرگرم کر دیا ہے‘ وہ حیران کن تیز رفتاری سے محترک ہو کر اپنے قائد کے لئے ڈھال بن گئے ہیں‘ جلسوں جلوسوں کا موسم آیا تو قوم تحریک پاکستان جیتی بیداری اور ستمبر 65ء کے جذبے کو پھر سے دہرائے گی۔