کینو کا نوحہ اسداللہ خان نے لکھ دیا۔ کینو کیا ہم نے کسی بھی پھل پر تحقیق کی زحمت نہیں کی۔ دو ہفتے پہلے ہری پور کے علاقے خانپور کے باغات میں جانا ہوا۔ ریڈ بلڈ مالٹوں کا یہ باغ لگ بھگ ساٹھ برس پہلے لگایا گیا۔ سینکڑوں کنال پر محیط باغ میں ریڈ بلڈ‘ شکری‘ فروٹر اور گریپ فروٹ کے پودے پھل سے لدے ہوئے تھے۔ پودے معمول کی قامت اور پھیلائو سے زیادہ تھے۔ باغبان سے پوچھا پودوں کی کانٹ چھانٹ کیسے کرتے ہوئ‘ کھاد کب دی جاتی ہے‘ پانی کا معمول کیا ہے‘ سپرے کونسا اور کب کیا جاتا ہے۔ اچھا لگا کہ باغ اتنے برسوں کے بعد بھی جوان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ بلڈ مالٹے اپنی موٹی جلد‘ ذائقے‘ مٹھاس‘ رنگ اور جوس کی مقدار کے حوالے سے سوغات کا درجہ رکھتے ہیں۔ مالٹے کی یہ قسم خانپور‘ پلائی‘ مالا کنڈ اور مانکی شریف سمیت کے پی کے میں متعدد علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ موٹر وے پر اسلام آباد کی طرف اترنے کی بجائے سیدھے چلتے جائیں تو ہری پور انٹرچینج تک پہنچتے آدھا گھنٹہ لگے گا۔ وہاں سے ایبٹ آباد ایکسپریس وے پر سفر کرتے ہوئے دس پندرہ منٹ میں چیچیاں ہری پور انٹر چینج آ جاتا ہے۔ بائیں طرف مڑیں تو تقریباً دس کلو میٹر پر ہری پور شہر ہے۔ دائیں جانب مڑ جائیں تو قریباً 25کلو میٹر پر خانپور آ جاتا ہے۔ مشہور خانپور ڈیم ہے۔ جس کی جھیل کا نیلا پانی اور جھیل کے حاشیوں پر دور کھڑے سبز پہاڑ آپ کے قدم روک لیتے ہیں۔ آگے بڑھیں تو سڑک کے کنارے مالٹوں سے بھری دکانیں ہیں صبر کر کے ہم آگے بڑھتے گئے۔ گاڑی ایک کچی سڑک پر آ گئی جس کے ایک طرف جنگل سا تھا۔ دو تین موڑ مڑنے کے بعد باغات شروع ہو گئے۔ کچی سڑک جہاں ختم ہوئی گاڑی رک گئی۔ ہم مہمان تھے‘ باغبان کو خبر کر دی گئی تھی۔ دو چار مقامی افراد پہلے سے موجود تھے۔ باغ میں گندم کی فصل ایک فٹ تک ہو گئی ہے پانی لگے چند روز ہوئے تھے۔ بچتے ہوئے آگے بڑھے۔ کیا منظر تھا۔ دس سے بارہ فٹ اونچے پودوں پر مالٹے بھرے ہوئے تھے۔ تقریباً تمام پھل تیار تھا۔ بلا سوچے جو چاہیں توڑ لیں۔ دو چار مالٹے خود توڑے‘ باقی کام میزبانوں نے سنبھال لیا۔ اچھا سا دانہ ڈھونڈتے‘ اسے چار حصوں میں کاٹتے اور ہمیں تھما دیتے۔ ساتھ میں ان مالٹوں کی تاریخ اور مقبولیت کی باتیں۔ خانپور کے مالٹے کا چھلکا موسمی کی طرح ہاتھ سے چھیلنا مشکل ہے۔ یہ چھلکا قدرے موٹا ہوتا ہے۔ شکری مالٹے کا چھلکا بالکل میٹھے کی طرح پتلا ہے‘ اس میں سے میٹھے جیسی خوشبو آتی ہے لیکن اسے کھاتے ہوئے وہ کڑواہٹ منہ میں نہیں آتی جو میٹھے کے ساتھ ہوتی ہے۔ فروٹر سائز میں مالٹے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا ہاتھ لگاتے ہی کھل جاتا ہے۔ خانپور کے مالٹے اور سرگودھا کے کینو میں رنگ‘ سائز ‘ جوس کی مقدار‘ مٹھاس اور ذائقے کا فرق ہے۔ فرینک سناترانے کہا تھا :مالٹا رنگ سب سے پرمسرت رنگ ہے۔ مالٹے کا رنگ دکھوں اور داخلی عدم تحفظ سے آزادی کی علامت ہے۔ حکیم کہتے ہیں‘ خاموش رہو اور مالٹے سے پیار کرو۔ فلسفی کہتے ہیں اپنے اندر کے مالٹے کو جانو۔ صوفی کہتے ہیں اگر تم شک میں مبتلا ہو تو مالٹا اوڑھ لو۔ کئی مقولے مشہور ہیں‘ مالٹا اتنا میٹھا ہوتا ہے جتنے بانسری کے سُر۔ زندگی مالٹے جیسی ہے تھوڑی کھٹی کچھ میٹھی۔ ایک مفکر نے کہا تھا جب مالٹے کو نچوڑیں تو اس کا جوس باہر آ جاتا ہے۔ جب انسان کو آزمائش میں ڈالا جائے تو وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔ ایک سیانے کا کہنا ہے کہ زندگی اگر تمہیں لیموں دے تو تم اسے مالٹے کا جوس بنا دو کہ لوگ تعجب سے پوچھیں ‘ یہ کیسے کیا؟ انسان پھل کا ٹکڑا نہیں کہ اسے مالٹا سمجھ کر اس کا جوس پی لیا جائے اور چھلکا پھینک دیں۔ غذائی ماہرین نے مالٹے اور سیب کی غذائی طاقت کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئے کہ مالٹے میں 20کیلوریز زیادہ ہیں‘4گرام شوگر‘5فیصد فائبر‘ 150فیصد وٹامن سی‘2فیصد کیلشیم‘ 5فیصد پوٹاشیم‘2فیصد وٹامن بی ٹو‘2فیصد ربوفلاوی ‘2فیصد پروٹین اور 13فیصد فولیٹ سیب کی نسبت زیادہ ہے۔ تمام قسم کے سٹرس کو کاٹتے یا چھیلتے وقت چھلکے سے ایک تیل ہوا میں گھل جاتا ہے۔ اس کی خوشبو انسانی مزاج کو خوشگوار بناتی ہے۔ مالٹا مدافتی نظام کو طاقتور بناتا ہے‘ جلد کو خراب ہونے سے بچاتا ہے‘ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتا ہے۔ کولیسٹرول کو کم کرتا ہے‘ بلڈ شوگر کا لیول قابو میں رکھتا ہے اور کینسر کے خطرات کم کرتا ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہے دنیا میں 600اقسام کے مالٹے کاشت ہو رہے ہیں۔ سپین کے ویلنشیا مالٹے معیار کے اعتبار سے پہلے نمبر پر شمار ہوتے۔ مینڈارین مالٹے دوسرے نمبر پر ہیں‘ امریکی ورائٹی نیول کو ماہرین تیسرے نمبر پر قرار دیتے ہیں۔ بلڈ اورنج ہمارے والا ریڈ بلڈ ہے جو چوتھے نمبر پر ہے لیکن اس میں کیلیفورنیا کی قسم معیاری سمجھی جاتی ہے‘ پاکستان کا ذکر نہیں آتا‘ پائن ایپل کے بعد اردن اور اسرائیل کے جافا مالٹے آتے ہیں۔سب سے زیادہ مالٹے برازیل 15.62ملین میٹرک ٹن پیدا کرتا ہے‘ چین 7.3یورپی یونین 6.19امریکہ 4.66ملین میٹرک ٹن پیدا کرتا ہے‘ پھر بھارت‘ میکسیکو‘ سپین‘ مصر ‘ ترکی‘ اٹلی اور جنوبی افریقہ کا نمبر آتا ہے۔ ہم تین میں نہ تیرہ میں۔ ہماری سوغاتیں جنگل میں کھلنے والے پھول ہیں جو دیدہ ور کے انتظار میں مرجھا رہی ہیں۔ ہارٹی کلچر ایکسپورٹ اور زرعی تحقیق سمیت کسی ادارے کو ان سوغاتوں سے دلچسپی نہیں جو پاکستان کا تعارف ہیں۔