دوست احباب کی کتابوں کی تقاریب میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے او سچی بات یہ ہے کہ بہت کم ہوتا ہے کہ کبھی کسی کتاب کو پڑھ کر کر اس کی تقریبِ میں گئے ہوں ۔ ہو تا یہ ہے کہ دوست نے کتاب بھیجی اورہم نے اپنی کم مائیگی اور کاہلی کی وجہ سے اس کو بڑی عقیدت سے چوما اور پھر سائیڈ پر رکھ دیا ۔ تقریب میں اُس کتاب پر اگر بات بھی کرنی ہو تو پھر کسی مشترکہ دوست نے اگر یہ کتاب پڑھ رکھی ہو تو اُس سے بات کر لیتے ہیں کہ بھئی اس میں کیا ہے اور اس پر کیا بات ہو سکتی ہے ۔ یا پھر تقریب کے دوران کسی ساتھی مقرر سے سرگوشی کے انداز میں پوچھ لیتے ہیں کہ اس کتاب کے مین پوانٹس کیا ہیں۔ یہ دنیا چونکہ مکافات عمل کی جگہ ہے لہذا پچھلے دنوں جب میری کتاب ’’مزاحِ کبیرہ ‘‘کی تقریب رونمائی ہو رہی تھی تو میں دیکھ رہا تھا کہ میں تو مصنف ہوں لیکن باقی سارے دوست تو وہی ہیں ۔ ایسے میں وہاں سٹیج پر موجود مہمانوں میں سے جب کوئی صاحب کسی دوسرے سے کوئی سرگوشی کرتا تو مجھے فوراً پتہ چل جاتا کہ کیا بات ہورہی ہے ۔ سو ! اس روز مجھے احساس ہو ا کہ تقریب میں وہ دو چار لوگ جو کتاب پڑھ کر آتے ہیں مصنف کو کتنے اچھے لگتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے بعد اب میں ہر تقریب میں کتا ب پڑھ کے آتا ہوں بھلے وہ جیسی بھی ہو۔ لیکن مزاح اور شگفتہ نگاری کی بات دوسری ہے ایسی کتابیں تو مجھے تروتازہ اور شاداب رکھتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں ہمیشہ میری روم میٹ رہتی ہیں ۔ یعنی میرے بیڈ کی دائیں طرف مشتاق احمد یوسفی صاحب کی’’ آب ِ گم ‘‘ہے تو بائیں طرف کرنل محمد خان کی ’’بجنگ آمد‘‘۔۔ ایک طرف عطاء الحق قاسمی صاحب کی’’ شوقِ آوارگی‘‘ ہے تو دوسری طرف حسین احمد شیرازی صاحب کی بابونگر۔۔ یہ کتابیں عمدہ مزاح اور ظرافت نگاری کی بنا پر روزمرہ پریشانیاں دور کرنے کا موثر ذریعہ ہیں ۔ پھر کچھ کتابیں ایسی ہیں جو اپنے سائز اور حجم کی بنا پر مطالعے کے علاوہ دیگر کارہائے خیر کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔مثلاً جب سے قاسمی صاحب کی’’ کالم تمام‘‘ اور شیرازی صاحب کی ’’بابو نگر ‘‘میرے سرہانے دھری ہیں میں اپنے آپ کو محفوظ سا سمجھنے لگا ہوں۔ یقین جانیئے ! اب کوئی پریشانی تو کیا ، گھر کے شرارتی بچے اور بیگم بھی قدرے فاصلے پر رہتے ہیں ۔اب ان کتابوں میں جناب اشفاق احمد ورک کی ’’ خاکہ زنی‘‘ کا اضافہ ہو گیا ہے جس کا سائز اگرچہ اتنا بڑا نہیں لیکن رائیٹر ایک دبنگ جاٹ ہونے کی وجہ سے اس کا پڑھنے والا اپنے اندر ایک عجیب دبدبہ محسوس کرتا ہے چنانچہ’’ خاکہ زنی‘‘ کے آنے کے بعد میرا حفاظتی حصار اور بھی مضبوط ہو گیا ہے۔ ایک دفعہ بادشاہ نے بیربل سے کہا کل وہ شکار کھیلے گا ۔بیر بل چونکا ۔ اسے پتہ تھا کہ بادشاہ کا نشانہ کچھ بھی نہیں لیکن اگر وہ کوئی جانور شکار نہ کر سکا تو وہ کسی انسان کا شکار کرے گا ۔ چنانچہ دانا وزیر نے فوراً ایک تدبیر لڑائی اور اگلے دن شکار کی جگہ پر ایک مریل اور بیمار سے ہرن کو کھڑا کر دیا ۔ اور بادشاہ سلامت کو وہاں لے گیا اور عرض کیا حضور والا!شکار حاضر ہے تیر چلائیں ۔ بادشاہ نے کمان سنبھالی اور پہلا تیر چلایا جو حسبِ توقع اس لاچار ہرن کے کوئی بیس گز دائیں گزرگیا ۔ اگلا تیر اتنے ہی فاصلے سے بائیں سے گزر گیا ۔ بادشاہ سخت غصے میں آگیا اور اس نے تیروں کی بارش شروع کر دی لیکن ہر تیر شکار سے دس بیس گز کے فاصلے سے گزر رہا تھا ۔ہر جگہ تیر پہنچ رہے تھے سوائے اس جگہ کے جہاں ہرن کھڑا تھا۔ بیر بل یہ صورتِ حال دیکھ کر پریشان ہوگیا اسے بادشاہ کے خراب نشانے کا علم تھا لیکن اس کے ایسے عدیم المثال اناڑی پن کا اسے بالکل ادراک نہیں تھا ۔ اتنے میں ایک تیر بیربل کے بالکل پائوں میں آکر گرا تو وہ گھبرا گیا ۔ اُس نے بادشاہ سلامت کو رکنے کا اشارہ کیا ۔ وہ آگے بڑھا ۔ ہرن کو وہاں سے ہٹایا اور خود اُس کی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور بادشاہ سے کہا کہ اب تیر چلائیں۔ بادشاہ نے جب یہ دیکھا تو چیخ کے کہا ،’’ بیر بل ! تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ تم شکار کی جگہ پہ کھڑے ہو گئے ہو اور مجھے تیر چلانے کا کہہ رہے ہو ۔ تمیں یہاں تیر لگ سکتا ہے ۔ ‘‘ بیر بل نے پورے اطمینان سے جواب دیا ، ’’ بادشاہ سلامت ! آپ تیر چلائیے ، اس وقت یہاں پہ سب سے محفوظ اور بہترین جگہ یہی ہے ۔ ‘‘ خواتیں و حضرات ! مجھے کہیں اور کا پتہ نہیں لیکن یہ علم ہے کہ اس وقت مزاح نگاری کے حوالے سے سب سے بہترین اور پھکڑ بازی سے محفوظ جگہ لاہور میں ظرافت منزل ہے جو اشفاق احمد ورک کا دولت کدہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اشفاق احمد ورک اس وقت عصرِ حاضر کے شاید دو یا تین ٹاپ موسٹ مزاح نگاروں میں سے ہیں ۔ مزاح کے علاوہ ان کی لاجواب نثرنگاری بھی قابل رشک ہے ۔ یہ لفظوں کے حکیم ہیں ۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ۔اُسی طرح جیسے روایت ہے کہ حکیم لقمان کے سامنے جڑی بوٹیاں خود اپنی تاثیر اور خصائص بتاتی تھیں ۔بالکل ایسے ہی الفاظ ورک صاحب کے سامنے حاضر ہوکر اپنے معانی بتاتے ہیں اور استعمال کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ۔ ورک صاحب کی دو تین خوبیاں جو مجھے زیادہ پسند ہیں اُن میں ایک تو ان کا انتہائی باکمال اُستاد ہونا ہے ۔ ان کا تعلق اساتذہ کی اُس ناپید ہوتی نسل کے ساتھ ہے جو تعلیم کے علاوہ تربیت پر نظر رکھتے تھے۔ انداز تدریس ایسا دلنشیں ، دلچسپ اور دلکش ہے کہ کبھی کسی طالب علم کو بوریت کا گماں نہیں ہوسکتا۔ اشعار ، واقعات ، مثالوں اور لطیفوں سے بھرپورگفتگو اور ایسی پُر مزاح اور ادبی چاشنی کے ساتھ کہ صوفی تبسم اور پطرس کی صحبتوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ ڈاکٹر ورک صاحب کی ایک اور لاجواب خوبی یہ ہے کہ یہ ادبی شخصیات کے ساتھ بے پناہ چاہت اور لگائو رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار یہ اپنے کالموں میں کرتے رہتے ہیں ۔ ادیبوں شاعروں کے لیے ان کی محبت اور خراج تحسین سے محمد حسین آزاد ؔ کے اُن تذکروں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو ہمیں ان کی شاہکار کتاب’’ آبِ حیات‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ ورک صاحب کی تازہ تصنیف’’ خاکہ زنی ‘‘ خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک لاجواب کتاب ہے ۔ یہ مزاح نگاری کے باب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے ۔ ’’ خاکہ زنی ‘‘ بلاشبہ اردو ادب میں ایک زندہ رہنے والی کتاب ہے ۔ آسکروائیلڈ نے کہا تھا کہ ، کچھ لوگ جہاں جاتے ہیں خوشی کا باعث بنتے ہیں اور کچھ جب جاتے ہیں تو خوشی کا سبب بنتے ہیں ۔ اس حوالے سے جناب اشفاق احمد ورک صاحب کا تعلق پہلے گروہ سے ہے کہ ان کی آمد و موجودگی ہر جگہ خوشی کا باعث ہوتی ہے ۔