کشمیرکی تحریک آزادی مشکل ترین اورکٹھن آزمائشی دور سے گزررہی ہیں ۔1990 ء میں جبر کے ماحول میں آنکھ کھولنے والی آزادی کشمیر کا مطالبہ کرنے والی کشمیر کی تیسری نسل خون آشام روز و شب میں پلی بڑھی اور تیغوں کے سائے میں جوان ہوئی۔ بھارتی فوجیوں کی دہشت اور گن گرج کے ماحول میں پیدا ہونے والی یہ نسل واضح طور پر بے خوف دکھائی دے رہی ہے۔ وہ موت کے ڈر اور ہر قسم کے دھونس اور دبائو سے صاف طور پر آزاد نظر آرہی ہے۔ ظاہر ہے اس نسل کی بے خوفی کا سبب ستم رسیدہ مجروح اور تباہ حال کشمیر کا ہے۔ اس نسل نے اپنے چہار سو نہ صرف قبرستان ہی قبرستان آباد دیکھے بلکہ روزانہ لاشیں پیوند خاک و آسودہ خا ک ہوتے ہوئے دیکھی ہیں۔ آتش و آہن اور خاک و خون کے ماحول کو کشمیر کی آزادی کی طلبگار اس تیسری نسل نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ وہ خون کے دریا کو ابھی تک عبور کررہی ہے۔ کشمیر کی اس نسل کے ذہن کو ترغیب و تحریص کے ذریعے سے تبدیل کرنے کی پیہم نا کام کوششیں کی گئیں۔ لالچ کا کون سا حربہ ہے جو اس پر آزمایا نہ گیا ہو کبھی اسے بھارت کے تاریخی مقامات کی سیر کرائی گئی اور اسے بھارت بھر میں گھمایا پھرایا گیا بھارتی فوج کے حیلہ ساز پروگرام ’’سد بھائونا‘‘ کے تحت اسے ایسے’’ فری اور آزاد‘‘ ماحول سے آشنا کر نے کی کوشش کی گئی جس سے وہ یقینا نا آشنا تھی۔ بھارتی منصوبہ ساز جو کشمیر کی اس نسل کا ذہن تبدیل کرنے اور ان کے اصل اور حقیقی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے شرمناک منصوبے پر کام کر رہے ہیںاور اس سلسلے میں مدتِ طویل سے اپنا شب و روز ایک کر کے وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سر جوڑکر بیٹھے ہوئے ہیں۔لیکن اسلامیان کشمیرنے ان منصوبہ سازوںکے نا پاک منصوبوں پر ہمیشہ پانی پھیر دیا۔جسے دیکھ کر وہ نہ صرف اپنے سر پیٹتے رہے ہیںبلکہ خاک چھاننے پر بھی وہ مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی کشمیر کی تیسری پیڑی کا اپنے گھروں ، سکولوں، کالجوں اور اداروں سے باہر آنا یہ سب بھارت کی قیادت مانے یا نہ مانے اس کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ بھارتی قیادت کو ضرور فرصت کے چند لمحات نکال کراس’’ نوشتہ دیوار ‘‘کو پڑھ لینا چاہیے تواسے صاف معلوم ہو جائیگا کہ کشمیر کی یہ نسل دامِ ہم رنگِ زمین میں جھانسے میں آنے والی نہیں۔ کشمیر کی یہ نسل ببانگِ دھل اعلان کر چکی ہے کہ وہ ظلم بربرّیت آگ اور خون میں پل کر کندن بن چکی ہے اسے فریب اودجل سے کند ذہن نہیں بنایا جا سکتا۔کشمیرکی موجودہ نسل کے جذبات دیکھ کر اس بات کااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں کہ بھارت کشمیر میں اپنا وقت اور اپنے وسائل ضائع کر رہا ہے کشمیر کی تیسری پیڑی کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے بھارت خونیں کھیل اور قتل و غارت کے ذریعے اورنہ ہی ترقی اورروزگارکے دجل وفریب سے کشمیری مسلمانوں کو اپنی غلامی میںنہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ کشمیری مسلمان بھارت استعماری کے تمام چہرے پوری طرح پہچان چکے ہیں ۔ وادی کشمیر کی صورتحال اس حقیقت پر پڑے تمام دبیز اور موٹے پردوں کو چاک کر تی ہے کہ بھارت کو بہر صورت کشمیری مسلمانوں کو ان کا پیدائشی حق ضرور دینا ہو گا۔ اوراس کے بغیر بھارت کے پاس کوئی چارہ نہیںبھارت کشمیری مسلمانوں کو ان کا پیدائشی حق دلانے میں جتنی تاخیر کر رہا ہے ا س سے وہ صرف اپنا نقصان کر رہا ہے اور اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کیوں اپنے نقصان پر مصر ہے اور وہ کشمیر میں کیوں بڑے پیمانے پر خسارہ اٹھا رہا ہے۔ کشمیرکانوجوان اس امرکوخوب سمجھ چکاہے کہ ہندوستان ایک قابض اور ظالم قوت ہے کہ جوکشمیری مسلمانوں کی بیداری کو بالجبرروکنے پر بضد ہے اور وہ انکی آزادی کی تحریک کوختم کرنے کے لئے اس کے انگ انگ پرنہایت بہیمانہ انداز سے وار کررہاہے اوریہ لرزہ خیز اور خوفناک صورتحال اس لیے پیدا کی جارہی ہے تاکہ کشمیری مسلمانوں کواس طرح سرنگوں کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی کا مطالبہ ترک کریں۔ قابض اور ظالم بھارت کا منصوبہ ہے کہ اسلامیان کشمیر کو جبراََوکرھاََبالآخر اس بات پر آمادہ کرالیا جائے کہ وہ جھک کر اور سجدہ ریز ہوکر اسکی اطاعت بجالائیںاور جس رخ پر انہیں موڑا جائے ’’حاضرجناب‘‘ کہہ کر وہ اس طرف مڑ جائیں۔ بھارت نئے نئے شوشے ڈال کر کشمیری مسلمانوں کویہ باورکرانے کی کوشش کررہاہے کہ وہ جس شے کو اصول ، موقف اور نظریہ کہتے ہیںاس کا اعتبار اب ختم ہو چکا ہے۔ان سے کہاجا رہا ہے کہ وہ اپنی اقدارِو تہذیب کوہندوئوں کے آگے قربان کر دیں اورہندوئوںکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔ فری سوسائٹی میں مل کر ان کی شان میں اضافہ ہو سکے گا۔ کشمیری مسلمانوں کو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذہب کی کوئی تفریق سرے سے ہی موجود نہیں ہونی چاہئے تاکہ مسلمان معاشی طور پرترقی کرسکیں اور انہیں ہر سطح پر سپورٹ مل سکے جس سے ان کا مستقبل روشن ،تابناک اور درخشندہ ثابت ہو سکے گا۔ کشمیری مسلمانوں کو نیا ’’ویژن ‘‘ اپنانے پر زوردیاجارہا ہے تاکہ وہ نئی الجھنوں میں سرگرداں رہیں۔ہندوبھارت حاملینِ قرآن کشمیریوںکوسبق پڑھارہا ہے کہ پہلے جو ہوا سو ہوالیکن اب انہیں پرامن زندگی گزارتے ہوئے بھارت کے خلاف نفرت کوترک کردیناچاہئے اوربھارت کے خلاف کی اپنی سوچ وفکر کوبدل دیناچاہئے اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے یہی پسندیدہ اور قابل قبول راستہ قراردیاجاتا ہے۔قابض بھارت کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کو یہ سمجھایاجارہاہے کہ اس دور میں وہ اپنے حقوق کسی سے چھین نہیں سکتے ، اپنے حقوق چھیننے کی بات کرنے پر ا نہیں خوف دلا کر یہ کہتے ہوئے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس طرح حقوق کا حصول محال اور ناممکن ہے۔بلکہ انہیں حقوق کے حصول کے لیے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اوردست بست ہوکرقنع ہوناچاہئے ۔ بھارت کے پیش کردہ اس غیرحقیقی، غیراصولی، غیر منصفانہ اور ظالمانہ طرز فکرکے مقابلے میں اسلامیان کشمیرکے چٹان موقف ،حقیقت پسندی، اصول پرستی، انصاف اورایمان کی بنیادپرببانگ دہل اعلان یہ ہے کہ وہ قوت لایموت ’’ درست نظریہ‘‘ پرقائم ہیں اورقائم رہیں گے جس میں انکی دائمی فیروزمندی ہے اوریہی ان کے لئے نیردرخشان ثابت ہوگا۔ ملت اسلامیہ کشمیرکاہرفردایک دوسرے کو اصول ، معقولیت،موقف اور نظریہ پر شدت کے ساتھ کار بند رہنے کی تلقین کرتاہے جس کے باعث’’ ستم گربھارت‘‘کے کھولے ہوئے ہر ترغیب وتحریص کے محاذپراسے خاطرخواہ جواب مل جاتاہے ۔