کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ کئی باتیں بہت دیرمیں جا کر کھلتی ہیں خاص طور پر جب انسان عنفوان شباب میں ہوتا ہے تو ہوا کا لمس بھی گدگداتا ہے۔ چندا ماموں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بادل اس کے لئے خوبصورت شکلوں میں ڈھلتے ہیں اور دھوپ چھائوں اس کی آنکھوں میں جھلملاتی ہے۔ رنگ استعارا بنتے ہیں اور خوشبو اشارا ۔ مگر پھر رفتہ رفتہ وہ بھی پھول کی نمی کی طرح روشنی میں اپنا آپ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ یہ نمی ہی تو اصل میں خوشبو ہوتی ہے جو بادصبا کے سنگ اڑ جاتی ہے پھر پتیاں تو بکھرتی ہیں: میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے سعد جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے مجھے ان باتوں کا خیال یونہی نہیں آ گیا میں نے گل رنگ چہروں کو مزید لال پیلے ہوتے دیکھا یہ وہ نوجوان ہیں نئے نئے جوانی کو چھو رہے ہیں اور ان کے انگ انگ میں زندگی ناچ رہی ہے۔ انہیں اپنے ہونے کا احساس بھی دنیا کو دلانا ہے۔ میں ان معصوم اور تھوڑے تھوڑے احمق لوگوں کو کچھ اور طرح سے دیکھتا ہوں میں زیادہ سسپنس پیدا نہیں کرتا ،جی یہ وہی لوگ ہیں جو فیض میلے سے فیض یاب ہوئے اور اب وہ اپنی پہچان کرواتے ہوئے نعرہ زن ہیں کہ جب لال لال لہرائے گا پھر ہوش ٹھکانے آئے گا۔ ان کی بدن بولی کچھ اور ہی بتاتی ہے کہ انقلاب میں ٹھمکے تو نہیں لگائے جاتے، یہ تو داخلی انقلاب محسوس ہوتا ہے اور یہ ہوتا ہے جب راتوں کو سکون نہیں ملتا اور دن کو چین نصیب نہیں ہوتا وہی جو کسی نے لکھا کہ کچی عمروں کی پکی باتیں مجھے تو ان کے انقلابی نعروں سے سعدی کا شعر یاد آگیا: بدم گفتی و خورسندم عفاک اللہ نکو گفتی سگم خواندی و خوشنودم جزاک اللہ کرم کردی بہرحال میٹھے ہونٹوں سے تلخ بات بھی گوارا ہوتی ہے اس نے اگر مجھے برا کہا تو میں خوش ہو گیا اور نیکی کرنے والے کو اللہ اجر دیتا ہے۔ شاید غالب نے بھی خیال میں سے لیا ہو : کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب گالیاں کھا کے بدمزہ نہ ہوا مجھے تو ان بچوں پر ترس بھی آ رہا تھا کہ آخر اس ساری سرگرمی کا حاصل کیا ہو گا کیونکہ ایک تو یہ بے وقت کی راگنی ہے جس سرخ سویرے کی بات کر رہے ہیں وہ تو کب کا دھندلا چکا۔ وہ لوگ جو سچ مچ کامریڈ تھے اور روس کا علم لے کر اٹھے تھے وہ روس کے ٹوٹنے کے بعد ان کے الم کی تصویر بن گئے مگر پھرتی کے ساتھ وہ روس سے رخ موڑ کر امریکہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے وہ فیض کا دور تھا ترقی پسند تحریک، ایک سے ایک بڑا آدمی انقلاب کا داعی تھا مگر حالات نے ان کے سب کس بال نکال دیے اب تو ویسی زمین موجود نہیں اور نہ ہی نمو کا موسم ہے آپ اس کو ٹیبلو کہہ لیں ان ممی ڈیڈی لوگوں میں وہ سکت نہیں جو حالات کا سامنا کر سکیں۔ دف پر اشعار پڑھنا اور بات ہے وہی بسمل فیض آبادی کے اشعار: سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار آئیں وہ شوق شہادت جن کے دل میں ہے ان بچوں نے وہ دن نہیں دیکھے جب ہر طرف حق اور باطل کی معرکہ آرائی تھی۔ رائٹ اور لیفٹ کی آویزش تھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یونین ہوتی تھی آئے دن مختلف کالج کی یونینز آپس میں معرکہ آرائی ہوتی تھی۔ یعنی پاور گیم کا مسئلہ تھا۔ جہاں تک یونین کی بحالی کا تعلق ہے کہ جس میں عمران خاں نے بھی بحالی کی سپورٹ کی ہے اور کچھ حاشیہ برداروں نے۔ اس حوالے سید ارشاد احمد عارف کا کالم اتنا مدلل ہے کہ یونین کی بحالی اس قوم پر یقینا ظلم ہو گا۔ میں خود یونین میں رہا ہوں۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے کہ میں پی ایس ایف کی طرف سے چشتیاں ڈگری کالج میں جوائنٹ سیکرٹری بنا۔ بھٹو سے ہماری ملاقات کچھ ایسی ہوئی کہ وہ آئے تو ہم نے انہیں ویلکم کیا۔ اس ہاتھ کا لمس اب بھی اس ہاتھ میں ہے۔ اس وقت بھی یونین ایک طاقت کا نام تھا۔ سچ یہ ہے کہ تب بھی اساتذہ کا ایک گروہ ہمیں گائیڈ کرتا اور دوسرے گروہ کے اساتذہ کا تبادلہ کروانے ہم لاہور آتے۔ ہماری حلف برداری کی تقریب میں اس وقت کے وزیر تعلیم ڈاکٹر عبدالخالق تشریف لائے تھے یونیورسٹی میں آ کر بھی ایسے ہی منظر دیکھے۔ میں نے یونین کے عہدے دار کو اپنے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اسماعیل بھٹی مرحوم کو یہ کہتے خود سنا ساڈی بلی تے سانوں ای میائوں، بتانے کا مقصد یہ کہ طلبا آزاد نہیں ہوتے بلکہ زیر اثر کام کرتے ہیں ان کی لگامیں بعض اوقات خارجی طاقتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ طلبا یونین طلباء و طالبات کو رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں یونیورسٹی اور کالجز میں صحت مند سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ انہی کے زیر اثر کیفے ٹیریا وغیرہ پر پھل اور دوسری چیزیں معیاری ملتی ہیں کنٹین والا من مانی نہیں کر سکتا۔ مگر طلباء اپنی طاقت اور اختیار کا استعمال کرنے پر آتے ہیں تو اساتذہ تک محفوظ نہیں رہتے۔ خود اساتذہ طلباء کو دوسرے اساتذہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو بہت ہی گھٹیا بات ہے۔ آئے دن جلسے جلوس اور ریلیاں تو بچوں کو برباد کر دیتی ہیں۔ سیاست کرنے والے تو چند ہوتے یں کچھ ان کے طفیلیے بن جاتے ہیں باقی پڑھنے والے بچے مارے جاتے ہیں۔ یونین پر پابندی پر سب خوش تھے ایسے ہی جیسے بسنت پر پابندی پر۔ پابندی کے باوجود اسلامی جمعیت اور کہیں کہیں دوسری جماعتیں فعال ہیں۔ مگر جب پابندی اٹھے گی تو وہ پرانا دور لوٹ آئے گا قتل و غارت تک نوبت پہنچتی ہے۔ امتحان تک لیٹ ہو جاتے بچوں کا تعلیمی سال بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ لال لال والے تو بالکل بے چارے ہیں وہ کون سا یونین میں آ سکتے ہیں۔ یہ تو این جی او قسم کی سرگرمی ہے جو وقتی طور پر لوگوں کو لطف اندوز کر سکتی ہے یونین بازی بہت خوفناک عمل ہے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ طلباء یونین نے کیسے کیسے بدمعاش پیدا کئے ۔کتنے نوجوان سیاستدانوں نے استعمال کئے اور بعدازاں انہیں پولیس مقابلوں میں مروا دیا گیا۔ خاں صاحب نوجوانوں کے لئے اور تو کچھ کر نہیں سکے اب یہی کسر رہ گئی تھی کہ وہ طلباء اور طالبات کو ادھر مصروف کر دیں ۔پتہ نہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ اس حکومت میں کوئی نہ کوئی فضول ایشو آئے دن پیدا ہو جاتا ہے جو کام کرنے کے ہیں وہ کوئی نہیں کرتا۔ بلدیاتی الیکشن نہیں کرائیں گے کہ اختیار و اقتدار نیچے تک کیوں جائے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: دیکھ لینا کہ یہی وقت نہ ہو چلنے کا آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں