نئے سپہ سالار کی تقرری پر سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے‘ سیاسی ہلچل کا سبب وہ عہدہ بنا ہوا ہے‘ قانوناً جسے سیاست سے کوئی علاقہ نہیں حتیٰ کہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا عہد اس کے حلف میں شامل ہے۔ ہر لیفٹیننٹ جنرل خواہ کوئی بھی ہو جان جوکھم میں ڈال کر‘ ہزارہا دشوار گزار راستوں سے گزر‘ مشکلات کے پہاڑ چیر کر ‘ قوت برداشت‘ صبر و ثبات کی بھٹی سے گزر کر‘ جسمانی اور ذہنی تربیت ، ہزاروں ساتھیوں سے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا اظہار کرتا ہے ۔ سکینڈ لیفٹیننٹ کے ابتدائی مرحلے کے لئے ایک کیڈٹ کو لاکھوں جوانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے جو عمر‘ تعلیم اور جسمانی صحت میں اس کے ہم پلہ ہوتے ہیں صرف تربیت کے لئے پروانہ حاصل ہوتا ہے کہ ’’پی ایم اے‘‘ میںداخل ہو کر خالص اور مشکل مراحل سے گزر جانے کی اہلیت ثابت کرے۔کتنے ہی قسمت کے مارے پی ایم اے سے گھر کی راہ لیتے ہیں ۔جو باقی بچ رہے‘ وہ سب کے سب دوست بھی ہیں‘ بھائی بھی ہیں‘ ہم سفر بھی ہیں‘ موت و حیات کی جنگ میں ساجھے دار بھی ‘ ایک دوسرے کی جان و آبرو کو اپنے سے بڑھ کر چاہتے ہیں‘ جنگ کے میدان میں ای دوسرے اور ملک پر جانثار کرتے ہیں‘ ان ساری محبتوں‘ وفاداریوں‘ جانثاریوں کے باوجود ان کے درمیان سخت مقابلہ بھی جاری رہتا ہے‘ یہ مقابلہ وفاداری میں ہے ‘ دوسرے کی جاں و آبرو کو اولیت دیتے ہیں‘ جنگ کے میدانوں اور تربیت گاہوں میں جان عذاب میں ڈالنے کے لئے ‘ ذہنی ‘ جسمانی‘ نفسیاتی اور تعلیمی میدان میں ہے۔ ان سب مراحل میں دیدہ‘ نادیدہ نگاہیں ہر وقت جائزہ لیتی ہیں‘ غیر جانبدار اور قابل اعتماد مستحسن فیصلہ کرتے تب سیکنڈ لیفٹیننٹ ‘ لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچ پاتا ہے۔ پاکستان بھر کے کئی لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان میدان میں اترتے ہیں۔چند ہزار، شاید دو ایک فیصد ابتدائی مرحلے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ چند ہزار میں بمشکل دو درجن خوش قسمت ہر مرحلے میں جاں سلامت لے کر مقابلہ کرتے ہوئے ’’لیفٹیننٹ جنرل‘‘ بن پاتے ہیں‘ان درجن بھر عہدے داروں میں ہر شخص آئندہ مرحلے کے لئے یکساں تیار ہے‘ ان میں سے ہر ایک ’’فوج کا سپہ سالار‘‘ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ ان دس بیس میں سینئر ترین تین چار لوگوں میں سے ایک کو ترقی دے کر بری فوج کا سربراہ مقرر کر دیا جاتا ہے‘ یہی سارا عمل بحری اور فضائی افواج پر بھی لاگو ہوتا ہے‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہ بھی بری فوج کے سپہ سالار کے برابر کا عہدہ رکھتے ہیں‘ مگر ان کا ذکر خیر شاید ہی کبھی سننے کو ملتا ہے سیاست دانوں کے ساتھ ان کے میل ملاپ کی کہانیاں‘ جنگ و جدل کے قصے‘ عہدوں پر ترقی کے فسانے کبھی سننے میں نہیں آتے لیکن بری فوج کے اعلیٰ عہدے دار چند دہائیوں سے اقتدار کی راہداریوں میں موضوع بحث رہے ہیں ۔ حالیہ برس 2022ء ہماری تاریخ میں یادگار ہے کہ جب بری فوج کی سپہ سالاری اور اس کے متوقع امیدواروں کو تنقید و تنقیص کے کانٹوں پر گھسیٹا گیا اور گھسیٹاجا رہا ہے ‘ ان کانٹوں سے چھلنی‘ دشنام و الزام سے چور سپہ سالار کیونکر نبھاہ کرے گا‘ آب و آگ کے سمندر کس طرح پار ہوں گے؟ خدا جانتا ہے یا وہ جانے جس کی جان پر گزرے گی اس لئے کہ اس کے سامنے اصل فرائض سے بڑھ کر بوجھ اور الزام کی گٹھڑی اٹھائے چلنا ہے۔ جوانوں کے مورال کو سنبھالنا ہے‘ افسروں کو مطمئن کرنا ہے‘ اپنے سینئر اور قابل احترام ریٹائر جرنیلوں کے سوالات کا جواب دینا اور انہیں مطمئن کرنا اور اپنی حمایت پر آمادہ کرنا ہے۔دوسروں کے حصے کی غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہے۔عوام میں حد سے بڑھتی ہوئی بے چینی کو دور کرنا ہے‘ لیڈروں کی جنگ و جدل کا حصہ نہیں بننا‘ خفیہ اداروں کو اپنے اصل کام کی طرف واپس لوٹانا‘ ذرائع ابلاغ کے ساتھ غیر ضروری رابطوںسے بچ کے رہنا ہے‘ پرامن‘ شفاف انتخابات کی نگرانی کرنا ،اپنی نیک نامی‘ غیر جانبداری‘ سیاست سے دستبرداری کے مراحل کو یقینی بنانا اور ان عناصر کو جو غیر ضروری حد تک تنازعہ کا حصہ ہیں ان سے نجات حاصل کرنا ہے‘ فوج کا مورال بلند کرنے کے لئے جنرل کیانی اور غیر جانبداری کے بھرم کے لئے جنرل کاکڑ اور عوام کی نظروں میں احترام کے لئے جنرل راحیل شریف بہترین رہنمائی دے سکتے اور مثال بن سکتے ہیں ۔پاکستان پر پہلے بھی مشکل مرحلے گزرے ہیں فوج کے سربراہوں اور افواج پاکستان کو کڑے وقت کا سامنا رہا ہے لیکن جو مشکل آج درپیش ہے اس سے پہلے کبھی اس طرح کے دن دیکھنے کو نہیں ملے‘ ’’یہ وہ آگ جس میں اپنا گھر ‘ گھر کے چراغ نے جلایا ہے‘‘ اب گھر کے مکینوں پر لازم ہے کہ آگ کو بجھائیں اور گھر کو پھر سے اچھی بنیادوں پر تعمیر کریں۔بری مثال قائم کرنے والوں سے فاصلہ اور اچھی مثالوں سے رہنمائی خود فوج کے سابق سربراہوں سے بھی مل سکتی ہے۔ فوج کو سیاستدانوں سے مکمل گلو خلاصی کبھی نہیں مل سکتی اس لئے کہ عوام کی رائے کے مطابق انہی میں مقننہ بنے گی اور وہی حکمران ہونگے لیکن قانونی حکمرانوں کے قانونی احکامات پر عمل درآمد ریاست کے سب اداروں پر لازم ہے۔ ان سے نظر بچا کے بالا ہی بالا یا اندر ہی اندر تہہ در تہہ خواہشات کی رکھوالی ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ اپنے عوام کا مفاد‘ ملک کی سلامتی اور قانون کے مطابق چنے حکمرانوں کے جائز احکامات پر عمل درآمد میں ہی امن‘ سلامتی اور احترام باقی رہ سکتا ہے ۔ باقی حکمران جنہوں نے ریاست کے وسائل کو لوٹا، حکمرانی کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا‘ بری حکمرانی ‘ کرپشن اور اقربا پروری سے اداروں کو تباہ کیا‘ وہ جب جب قانون کی گرفت میں آئے ریاستی اداروں نے اس طرح کے زہریلے سانپوں کا سر کچل دینے کی بجائے ان کو تحفظ دیا۔سرپرستی میں ملوث کسی مجرم کوسزا نہیں ہو سکی۔ کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی رسی دراز ہے۔ وہ دندناتے پھرتے ہیں‘ دیانتدار‘ محب وطن عناصر آہستہ آہستہ مایوس ہو کر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔یہ روش جاری رہی تو ملک و قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘ خوش قسمتی سے نوجوان مرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد خاموش بیٹھ رہنے کی بجائے اپنی قوم اور اپنے مستقبل کوبچانے کے لئے میدان میں ہے‘ وہ خاموش ہونے اور گھروں میں بیٹھ رہنے کو تیار نہیں‘ انہوں نے 10اپریل کو گھروں سے نکل کر 9اپریل کے اقدامات کو غلط ثابت کر دیا‘ خود آگے بڑھ کر عمران خاں کو اپنی رہنمائی اور قیادت کے لئے کندھوں پر اٹھایا‘ سر پر بٹھایا ہے‘ وہ اپنی قیادت سے دستبرداری کے لئے تیاری نہیں‘ وہ امریکہ کی دھونس‘ ملک کے بااثر طبقے کی سازش اور بٹے ہوئے عناصر کی سیاست کو قبول کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں۔ان کے مطالبات اس قدر جائز اور قانونی ہیں کہ کوئی انصاف پسند اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ ’’فوری صاف‘ شفاف انتخابات ہی سیاسی بحران کا واحد حل ہے‘‘ اس کی بغیر امن اور معیشت کی بحالی کا خواب نری حماقت ہے۔