جنگِ عظیم اوّل کے بعد جب فتنۂ دجال کے دیباچے کے طور پر جدید سودی مغربی تہذیب نے جنم لیا تو سودی معیشت اور سیکولر جمہوریت اس کے دو اہم ستون تھے۔ان دونوں ستونوں کو قائم رکھنے اور تحفظ دینے کے لیے ایک ریاست کی قوت کی شدید ضرورت تھی۔ ریاست جتنی طاقتور اور مضبوط ہوگی اتنا ہی وہ اپنے نظام کا تحفظ کر سکے گی۔ شرط صرف ایک رکھی گئی کہ سیاست کی بنیاد اوراسکی قوتِ نافذہ بھی سیکولر ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے پوری دنیا کو علاقائی، جغرافیائی اور جہاں تک ممکن تھا نسلی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا۔ ہر ریاست کو اپنے لیے ایک فوج کی ضرورت محسوس کرائی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ 1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن منظور کرنے کے بعد ویزا ریگولیشن لائی گئیں اور لوگوں کو اپنی ریاستوں میں مقید کرنے کے لیے بارڈر سیکورٹی فورسز قائم ہوئیں۔ ویسے بھی دنیا کو ایک منصوبے کے تحت اسطرح تقسیم کیا گیا تھا جیسے کوئی کیک میز پر رکھ کر کاٹا جاتا ہے۔ یوں ہر ملک کی سرحد پر بے شمار جھگڑے پھوٹ پڑے۔ کسی کا قبیلہ، خاندان بلکہ کاروبار تک دوسری سمت رہ گیا تھا تو کوئی دشمنوں کے درمیان محصور ہو گیا تھا۔ بھارت کے کشمیر کی طرح کے لاتعداد ایسے علاقے تھے جو اس تقسیم کے تحت ناسور کی طرح دنیا کے نقشے پر چھوڑے گئے تاکہ قومی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے لیے ایک مضبوط فوج رکھنے کی ضرورت پڑتی رہے۔سب سے پہلے یہ یقینی بنایا گیا کہ دنیا کی ہر فوج نظریاتی طور پر سیکولر ہو تاکہ وہ اس سیکولر جمہوری سیاست اور سودی معیشت کی ضامن بن سکے۔ اس وقت دنیا میں صرف ایک ہی نظریاتی فوج تھی اور وہ تھی خلافتِ عثمانیہ کی ’’نظریاتی اسلامی فوج‘‘۔ اس لیے کہ خلافتِ عثمانیہ کی ہیت ترکیبی مسلمانوں کے چودہ سو سالہ نظام کا تسلسل تھی۔ دجالی جمہوری سودی نظام کے منصوبہ سازوں نے جنگِ عظیم اوّل میں نہ صرف مسلمان اُمت کی اس اجتماعی چھتری اور علامت کا خاتمہ کر کے اسے لاتعداد علاقائی اور قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا،بلکہ ہر ملک میں ایک قومی علاقائی فوج بھی تشکیل دی گئی، جس کا کام صرف اور صرف ریاست میں نافذ اس نئے نظام کا تحفظ کرنا تھاجو ان قومی ریاستوں کو بناتے وقت تحفے میں دیا گیا تھا۔لبنان کا آئین ان طاقتوں نے ڈرافٹ کیا،جس میں ملک کو عیسائیوں، شیعہ مسلمانوں اور سنی مسلمانوں میں تقسیم کر کے اس کی شناخت سیکولر بنا دی گئی۔ اب جو اس شناخت کو بدلنے کی کوشش کرے گا وہ غدار اور دہشت گرد کہلائے گااور ایسے دشمن ِ وطن کا سر کاٹنے کے لیئے قومی سیکولر فوج موجود ہوگی۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کی اسلامی فوج کے خرمن کو جلا کر جو فوج ترتیب دی گئی وہ تو اسقدر اسلام دشمن سیکولر تھی، کہ کمال اتاترک کی سربراہی میں اس نے ایک ایسے جمہوری سیکولر نظام کا تحفظ کیا، جس میں قومیت کا تشخص ابھارنے کے لیے جب ترکی زبان میں اذان دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے عربی میں اذان دنیا شروع کی تو اسے گولی مار دی گئی، اس کے بعد دوسرا اٹھا اور یہ فریضہ انجام دینے لگا، غرض سات ممبرانِ اسمبلی نے شہادت کا جام پی کر یہ اذان مکمل کی ۔ اس جدید عالمی سیکولر جمہوری نظام کے نفاذ سے پہلے پوری دنیا کے ایک بڑے حصے پر انگریز، فرانسیسی، ولندیزی اور پرتگالی استعماری نو آبادیاتی قوتوں کی حکومتیں تھیں۔ ان کے زیرِ سایہ منظم سیکولر قومی افواج کام کر رہی تھیں۔ جنگِ عظیم اوّل کے دوران 1917ء میں روس میں بالشویک کیمونسٹ انقلاب لانے کی وجہ صرف ایک تھی ۔قدیم آرتھو ڈوکس چرچ کے غلبے والے روس کا انگلینڈ اور فرانس کے ساتھ دس سالہ رومانس عین جنگ کے دوران اسی انقلاب کی وجہ سے ختم ہوا۔ جنگ سے پہلے روس سے وعدہ کیا گیاتھا کہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد استنبول کا شہر اسے دے دیا جائے گا، جو کبھی آرتھوڈوکس چرچ کا مرکز تھا۔ روس نے اسی استنبول کو حاصل کرنے کی خواہش میں پولینڈ پر حملہ کر کے یوکرین کو فتح کیاتھا۔ لیکن جیسے ہی جنگِ عظیم اوّل کی فتح نزدیک ہوئی تو یہ ڈر محسوس ہونے لگا کہ روس یوکرین سے براہ راست چند گھنٹوں میں استنبول پہنچ سکتا ہے تو اس کا علاج پہلے سے ہی اس صیہونی دجالی سودی جمہوری نظام کے منصوبہ سازوں نے سوچ رکھا تھا۔انہوں نے روس کے یہودیوں کے سرمائے اور اسلحے کی ترسیل سے وہاں پاپولر مسلح کیمونسٹ انقلاب برپا کروا دیا۔جس نے آرتھو ڈوکس چرچ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تمام چرچ بند کر دیئے گئے، پادری قتل ہوگئے یا روپوش ہو گئے۔ مسلمانوں کے علاقوں تاجکستان، ازبکستان اور آذر بائیجان وغیرہ میں بھی بدترین ظلم و بربریت کے بعد قرآن اور مولوی کو علاقہ سے ایسے غائب کیا گیا جیسے وباء کے زمانے میں جرثومے مارے جاتے ہیں۔ کیمونزم انقلاب آیا تو روس اس پہلی عالمی جنگ سے باہر ہو گیا۔ پیٹر دی گریٹ کے خواب کی تکمیل والے آرتھو ڈوکس چرچ کی خواہش دم توڑ گئی ،اور پھراستنبول کے شہر میں موجود چھ سو سالہ اسلامی خلافت کو بھی ختم کر دیا گیاتاکہ پوری دنیا میں مذہب کے نام پر کوئی فوج موجود نہ رہے۔یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے سب سے پہلے بڑے غدار شریفِ مکّہ نے جب آل رسولﷺ ہونے کی بنیاد پر حجاز میں خلافت کا اعلان کیا تو صرف ایک سال کے اندر انگریز نے اپنے دوسرے پروردہ آل سعود سے حملہ کروا کر اسے نکال باہر کیا اور اب وہاں بھی آل سعود کی محافظ فوج ہے، بلکہ مملکت کا نام بھی چودہ سو سال بعد اسلامی عرب کی بجائے سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ اب دنیا کا نقشہ مکمل ہو گیا تھا۔ اس نظام کی خواہش کے عین مطابق۔ دنیا میں صرف ایک نظریاتی ملک اور ایک نظریاتی فوج باقی رہ گئی تھی۔ ملک تھا بالشویک روس اور فوج تھی ریڈ آرمی۔ صرف ایک خرابی تھی کہ ان کا نظریہ سودی اور کارپوریٹ معیشت کے خلاف تھا۔ اسی لیے جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہو گئی اور برٹن ووڈ معاہدے کے تحت مصنوعی کرنسی ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف والے عالمی معاشی نظام کانفاذ ہو گیا تو اس کیمونسٹ ملک اور نظریاتی کیمونسٹ ریڈآرمی کے خلاف دنیا بھر میں سرد جنگ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اس ساری تقسیم کے دوران دو ملک ایسے بھی وجود میں آئے جن کی بنیاد مذہب تھی۔ ایک اسرائیل تھا جو خود اس سارے دجالی سودی جمہوری نظام کے منصوبہ ساز وں نے اپنے لیے ایک مرکز کے طور پر تخلیق کیا تھا اور دنیا بھر سے لاتعداد زبانیں بولنے والے اور بے شمار قومتیں رکھنے والے یہودیوں کو وہاں لا کر آباد کیا تھا۔ ایسے ملک سے اس سیکولر جمہوری سودی نظام کو کیا خطرہ تھا۔ دوسرا ملک پاکستان تھا ۔ دنیا کے یہ تمام منصوبہ سازاس کی تخلیق کے وقت بہت مطمئن تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اس ملک میں اسلام کبھی ایک نعرے سے زیادہ حیثیت اختیار نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ انگریز نے ورثے میں تین ایسے قومی ادارے چھوڑے تھے جو اپنی تخلیق میں سیکولر تھے، ایک سول بیوروکریسی، دوسری سیکولر سیاسی اشرافیہ اور سیکولر تیسری فوج۔ چونکہ عالمی سطح پر جنگ پہلے کیمونسٹ نظریے اور کیمونسٹ فوج سے ہو رہی تھی اس لیے پاکستان کے اسلامی نظریے کو ان عالمی منصوبہ سازوں نے قائم رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے 1954ء میں جس سیاسی پارٹی پر پابندی لگی اور جس کے لیڈروں پر بغاوت کے مقدمے بنے وہ پاکستان کیمونسٹ پارٹی تھی۔ سجاد ظہیر کی قیادت میں 6مارچ 1948ء کو بننے والی اس پارٹی کی عمر صرف چھ سال رہی۔فیض احمد فیض اور جنرل اکبر غداری کے جرم میں اسیر ہوگئے۔ (جاری)