ہو سکتا ہے یہ بات کسی کو اچھی نہ لگے، مگر سچ کہنے سے اس لیے باز نہیں رہنا چاہیے کہ اس سے کوئی ناخوش ہوگا۔ آج پہلی بار مجھے اس شہرت یافتہ ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا نام پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ہے۔ سچ کہتا ہوں، میں ششدر رہ گیا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ عدالت میں اس کے بارے میں کیا بحث جاری ہے اور اس بحث کے کیا کیا پہلو ہیں۔ مجھے تو یوں لگا پاکستان میں ایک یگانہ روزگار ہسپتال تعمیر ہورہا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ گیا تھا تو ششدر رہ گیا تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ میں پاکستان کے کسی ہسپتال میں آیا ہوں۔ یہ ادارہ SIUT یوں تو سول ہسپتال کراچی کی توسیع تھا مگر اندر جاتے ہی اندازہ ہوتا تھاکہ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ انسٹیٹیوٹ پاکستان میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا میں ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کے بعد میرے بہت سارے تعصبات دور ہوئے۔ اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ فی سبیل اللہ نیک کام کرنا صرف ایک خاص طرح کے دیندار لوگوں کا خاصا ہے۔ طالب علمی کے زمانے کے تعصبات میں یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ لیفٹ کی سیاست کرنے والا کوئی شخص اس انداز میں خدمت خلق کا کوئی ادارہ بنا سکتا ہے نہ صرف معیار کے لحاظ سے یہ ایک بے مثال ادارہ ہے بلکہ ایک ایسا رول ماڈل ہے جس تک پہنچنا عام آدمی کے بس میں نہیں۔ وہاں اصول یہ ہے کہ آپ علاج کے لیے جائیں تو کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ علاج کی قیمت ادا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے ہم کون ہیں کہ آپ ان اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ آپ کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ ہم آپ سے علاج کے لیے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے۔ اللہ نے آپ کو نواز رکھا ہے تو آپ چاہیں تو عطیہ دے دیجئے گا۔ دینے والے خوب دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے۔ پھر یہاں علاج اور سہولیات کا وہ معیار ہے جو دنیا میں کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ بعض اور اداروںنے اپنے اپنے انداز میں اس ماڈل کو اپنانے کی ’’سنا ہے‘‘ کوشش کی ہے۔ مگر میں یہاں اپنے اس تجربے کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا سارا ذہن بدل گیا کہ نیک کام کرنا کسی خاص دیندار طبقے کی میراث نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کی توفیق سے ہے جسے وہ عطا کرے۔ اس پی کے ایل آئی میں آ کر میرے دل میں ایسا ہی احساس پیدا ہوا۔ اس کا نقشہ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ اس طرح کا ادارہ ہوگا۔ ابھی یہ مکمل نہیں ہوا مگر یہاں جا کر بالکل ایسا تجربہ ہوا جو SIUT جا کر ہوا تھا۔ دور گویا جنگل میں یہ ادارہ قائم ہے مگر سینکڑوں مریض بڑی ترتیب اور بڑے نظم کے ساتھ یہاں موجود تھے اور بڑے سلیقے سے ان کی مدد ہورہی تھی۔ اللہ کرے میرا حسن ظن درست ہو۔ بات انصاف کے ایوانوں تک جا پہنچی ہے، اس لیے کچھ عرض کرنے میں تذبذب ہے مگر اپنے اس تاثر کوچھپا نہیں سکتا کہ یہ ادارہ مکمل ہوگیا تو یقینا ان کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا جنہوں نے اس کی تشکیل کا تصور پیش کیا اور اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس ملک میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جن کی سیاست سے بلند ہو کر تعریف ہونا چاہیے، میں شوکت خانم کی تعریف کیا کرتا ہوں، اس طرح کراچی کا آغا خان ہسپتال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ پہلا ہسپتال تھا جس نے پاکستان میں ہسپتالوں کے لیے ایک معیار پیش کیا کہ ایسے ہوتے ہیں ہسپتال۔ ابھی صحت کے شعبے میں پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہے۔ آخر بھارت میں میڈیکل سروسز اتنی اچھی اور سستی کیوں ہیں کہ ہمارے ہاں سے بھی لوگ علاج کے لیے وہاں جاتے ہیں یا دنیا کے اس علاقے میں سنگاپور کی علاج کے اعلیٰ معیار کے لیے شہرت کیوں ہے۔ ہم کیوں اس شعبے میں آگے نہیں جا سکتے۔ میں ملک ریاض کی مخیرانہ کوششوں کے باوجود ان کے بارے میں ایک منفی ذہن رکھتا آ رہا ہوں۔ ایک دن اچانک ایک حدیث سنی مفہوم کچھ یوں تھا کہ کوئی اگر اچھے کام کرے تو اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرکے اس کی تعریف کرنے میں بخل نہ کیجئے۔ میں اس پر ایسا سہم گیا کہ ملک صاحب کے اچھے کاموں کو سراہنے پر خود کو مجبور پایا۔ میری ان سے صرف ایک ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں مجھے ایک بات کا علم ہوا، کہنے لگے، وہ جو ہسپتال بنا رہے ہیں اس کے لیے آپریشن تھیٹر باہر سے منگوا رہے ہیں۔ مطلب نہ سمجھا تو استفسار کیا۔ معلوم ہوا کہ آپریشن تھیٹر ٹائلیں جوڑ کر نہیں بنتا، یہ ایک کیپسول کی طرح کا بلاجوڑ کا ایک کمرہ ہوتا ہے جو پورے کا پورا باہر سے لایا جاتا ہے وگرنہ ہمارے ہاں جو آپریشن تھیٹر ہیں، ایسے تھیٹر تو جانوروں کے علاج کے لیے بھی نہیں ہوا کرتے۔ میں نے اس کے بعد بہت سے ماہر سرجنوں سے پوچھا، انہوں نے اس کی تائید کی۔ ظاہر ہے یہ سسٹم بہت مہنگا ہوگا۔ ہمارے ملک میں ابھی بہت کچھ نہیں ہے۔ ایک دوست کو یہاں بھی ایم آر آئی کے مشکل تجربے سے گزرنا پڑا اور امریکہ میں بھی۔ وہ کہتے ہیں، وہاں گویا وہ شیشے کے ایک کمرے میں بیٹھے حسب خواہش ٹی وی دیکھتے رہے اور ان کا ایم آر آئی ہو گیا۔ ہو سکتا ہے اس میں میری حیرانی نے مبالغے کا عنصر شامل کرلیا ہو مگر کہنا یہ چاہتا ہوں، پاکستان میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ہمارے ہاں بعض ہسپتال اس خیال سے بنانے گئے کہ یہاں مشرق وسطیٰ کے امرا آ کر علاج کرائیں گے، مگر یہ ہسپتال زیادہ شہرت نہ پا سکے کہ انہیں ایک ڈاکٹر دوست کے مطابق بوتیک ہسپتال کہا جاتا ہے۔ جی ہاں، جہاں سب آسائشیں موجود ہوں مگر علاج کا معیار جو اصلی بات بنے۔ اس میں غیر معمولی بات نہیں۔ میری گزارش ہے ہمیں ان اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو کسی سرپھرے نے بڑی کاوشوں اور محنتوں سے تشکیل دے دیئے ہوں۔ گناہوں کی سزا اپنی ہوگی، مگر خلق خدا کی خدمت کے صدقہ جاریہ کا اجر ان سے کوئی نہیں چھین سکتا جو یہ کام کر گئے ہیں۔ یہ صرف صحت کا شعبہ نہیں ہے، ہم اپنے اکثر منصوبے سیاست کی نذر کردیتے ہیں۔ میں روزانہ اکثر اورنج لائن کے پاس یا نیچے سے گزرتا ہوں۔ ٹھوکر نیاز بیگ کے آگے تک اس پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ ہر بار اس پر رونا آتا ہے کہ آخر اسے کیوں خوا مخواہ تاخیر کا شکار کیا جارہا ہے۔ یہ حساب کرتے رہیے اس پر کتنا ’’گھپلا‘‘ ہوا، لاہور کے عوام کو اس سے استفادہ تو کرنے دیجئے۔ یہ غلطی سے بن گیا ہے تو اسے مکمل ہونے دیجئے۔ پہلے ہماری پارسائی اور انصاف پسندی نے اسے 22 ماہ تک لٹکائے رکھا۔ عدالت نے اس پر فیصلہ ہی کوئی آٹھ ماہ تک محفوظ رکھا۔ اس تاخیر کے باوجود بھی اب اسے چل جانا چاہیے۔ اس میں خوا مخواہ تاخیر ہورہی ہے۔ ابھی اس ملک میں ہونے والے بہت سے کام ہیں۔ کراچی میں بھی میٹرو بس کے منصوبے لٹکے پڑے ہیں۔ مجھے گورنر سندھ کی یہ بات اچھی لگی کہ وہ اس منصوبے اور اس سے ملحقہ دوسرے منصوبوں کو اس لیے تاخیر کا شکار نہیں کرسکتے کہ اسے نوازشریف نے شروع کیا تھا۔ میں نے اوپر ملک ریاض صاحب کی مثال دی ہے، ان کے مخیرانہ منصوبے اگر عوام کو فائدہ پہنچاتے ہیں، تو ان کے خلاف اس لیے آواز نہیں اٹھانا چاہیے کہ ملک ریاض کے تعمیراتی منصوبوں پر بعض لوگوں کو بہت سی شکایات ہیں۔ خدا کوئی کام کس سے لیتا ہے اور کب لیتا ہے، یہ وہ ہی جانتا ہے۔ وہ چاہے کس کو کیا اعزاز بخش دیتا ہے۔ میں کون ہوتا ہوں اس پر حسد کرنے والا یا اس میں کیڑے نکالنے والا۔ اعلان کرتا ہوں کہ آج جس ہسپتال اور ادارے کو دیکھ کر لوٹا ہوں اس کے معیار اور عوام کے لیے اس کی خدمت کا اندازہ لگانا ہو تو وزیراعظم عمران خان خود اس کا دورہ کرلیں۔ وہ ایک بڑا ہسپتال بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ اندازہ کرلیں گے کہ یہ کس پائے کی چیز ہے۔ تعمیرات پر حساب کتاب آپ ضرور دیکھ لیجئے، مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ نے یہ کام جس سے لینا تھا وہ لے لیا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں خدا کے کاموں میں دخل دینے والے۔ خدا کے لیے پاکستان کو آگے بڑھنے دیجئے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا۔