یہ موضوع ایسا ہے کہ صرف ایک دن اس کے نام کرنے سے بات نہیں بنتی۔ دنیا کی بات الگ ہے، وہاں ذہنی بیماریوں کو جسمانی بیماری سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں نفسیات دان یا پھر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرنا، سیشن اوردوا لینا، ہرگز ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو اور اسے علاج کا مشورہ دیا جائے تو وہ اس خوف سے علاج نہیں کرواتا کہ لوگ اسے پاگل کہیں گے۔ 10 اکتوبر کو دنیا بھر میں مینٹل ہیلتھ کا دن منایا جاتا ہے۔ ہر برس کوئی ایک موضوع منتخب کرکے اس پر آگاہی کے لئے کانفرنسیں، سیمینار اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔اس بار کا موضوع ہے خودکشی سے بچائو کیسے ممکن ہے۔ میں جب ذہنی صحت کے عالمی دن اور اس بار کے منتخب کردہ موضوع کے تناظر میں اپنے لوگوں کی حالت پر نگاہ ڈالتی ہوں تو مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے سماج میں تو اس پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سماج میں حالت یہ ہو گئی ہو کہ کاروبار بند ہو رہے ہیں، لگی لگائی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ روپے کی قدر گھٹنے سے تنخواہیں سکڑ چکی ہیں۔ غریب بیچارہ بازار جا کر اپنی خالی جیب پر شرمندہ ہو جاتا ہے۔ بچہ بیمار ہو جائے تو دوا کے پیسے نہیں ہوتے۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کی حکومت نے لنگرخانے کھول کر اور مایوسی بڑھا دی ہے۔ اب لوگوں کو یقین ہو چلا ہے کہ یہ حکومت نوکریاں پیدا نہیں کر سکتی اس لئے لنگر خانے کھول دیئے ہیں کہ اپنی بھوک مٹائو، خواہ عزت نفس چلی جائے، ان حالات میں مایوسی اور بڑھتی ہے۔ زندگی صرف ایک وقت روٹی اور سالن ملنے سے گزرنی ہے۔ سو طرح کے مسائل، دوا دارو، بچوں کی تعلیم، سماجی معاملات ہیں۔ میل ملاپ، شادی غم پر اخراجات، لنگرخانے کھولنے والے یہ بھی بتائیں مسائل کی یہ گتھیاں کون سلجھائے گا، ان حالات میں لوگ ذہنی مریض نہیں بنیں گے تو اور کیا ہو گا۔ ذہنی بیماریوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہوتا ہے کہ بظاہر انسان ٹھیک دکھائی دیتا ہے۔ جسمانی بیماریوں کی معمولی ترین قسم، نزلہ بخار بھی دکھائی دے جاتا ہے اور لوگ اس کا دوا دارو کر لیتے ہیں جبک شدید ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو بعض دفعہ ان کے قریبی دوست احباب اور رشتہ دار بھی سمجھ نہیں پاتے۔ جسم کی عمارت بظاہر ٹھیک ہوتی ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ حالات کی ستم گری نے ذہنی توازن کی دیوار میں خوفناک دراڑ ڈال دی ہے۔ بعض اوقات مریض خودکشی کے دہانے پر ہوتا ہے لیکن اس کے قریبی لوگ اس المیے سے بے خبر رہتے ہیں۔ ایک تو قیامت سوشل میڈیا نے ایسی ڈھائی کہ لوگ انسان سے زیادہ موبائل کو دیکھتے ہیں۔ اپنے قریبی انسانوں کے خدوخال سے زیادہ سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں۔ دوستیاں بھی فیس بک پر نبھائی جا رہی ہیں۔ اب چہروں کو پڑھ کر دوستوں کے شب و روز میں جھانکنے کی ضرورت کسے رہی ہے۔ آج ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ بعض اوقات مسلسل ذہنی دبائو اور اینگزائٹی جسمانی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ بلڈ پریشر، شوگر، جوڑوں کے امراض، مسلسل تھکن، معدے کے امراض جنم لیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اسی فیصد کردار ذہنی دبائو اور ڈپریشن کا ہوتا ہے۔ یہ آگاہی بھی ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ بلڈ پریشر ہائی ہو جائے تو عام فزیشن ظاہر ہے بلڈپریشر نارمل کرنے کی دوا دیتا ہے۔ اس کے ماخذ کو سمجھنے کی کوئی جنرل فزیشن کوشش نہیں کرتا۔ ایک کیس بھی ایسا مشاہدے میں آیا کہ ہائی بی پی کسی طور بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر اس کا علاج سائیکاٹرسٹ کی دوائوں سے ہوا کیونکہ فشار خون بڑھنے کی وجہ وہ ہارمونز تھے جو مسلسل رہنے والے ذہنی دبائو سے پیدا ہو رہے تھے۔ ڈپریشن اور اینگزائٹی جب ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کرے تو پھر مریض کو موت زندگی سے آسان دکھائی دیتی ہے۔ جسم میں موجود کیمیائی مادوں اور ہارمونز کا توازن اس طور بگڑتا ہے کہ مریض اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لیتا ہے۔ پچھلے دنوں آمنہ نام کی ایک بیوٹی بلاگر نے خودکشی کرنے سے چند گھنٹے پہلے فیس بک پر لائیو ویڈیو جاری کی۔ راولپنڈی کی رہائشی وہ لڑکی اپنی زندگی میں کچھ سالوں سے بدترین ڈپریشن اور اینگزائٹی سے گزر رہی تھی۔ دو دفعہ کی ناکام شادیوں، اکلوتی بیٹی کی کسٹڈی چھن جانا اور سب سے بڑھ کر والدین کے سرد اور بے مہر رویے نے اس کو ذہنی دبائو کی اس دل خراش سطح پر پہنچا دیا کہ پہلے اس لڑکی نے لائیو ویڈیو کال کے ذریعے سوشل میڈیا کی انجان دنیا کو اپنا دکھ سنایا اور پھر اپنی جان اپنے ہاتھوں سے ختم کر لی۔ میں سمجھتی ہوں کہ انسانوں کے باہمی رابطوں کا یہ والا رخ انتہائی افسوسناک ہے کہ خودکشی کے کنارے پر کھڑی ہوئی آمنہ کا دکھ اس کے والدین بھی نہ سمجھے اور اسے کوئی مخلص دوست بھی نہ ملا کہ جس کے کاندھے پر سر رکھ کر وہ روایتی اور اپنے اندر کا لاوا باہر نکال دیتی۔ ڈیجیٹلائز دنیا کی تنہائی میں وہ لڑکی سوشل میڈیا پر آکر اپنا دکھ سکرین کو سناتی رہی اور پھر مر گئی۔ وہ ہرگز اس سٹیج پر نہ پہنچتی اگر وہ ڈپریشن کی ابتدائی سطح پر کسی نفسیات دان اور ذہنی امراض کے ڈاکٹر سے اپنا علاج کرواتی۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سماج میں ذہنی بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جانا تو پھر دور کی بات ہے۔ ذہنی بیماری کو ہمارے ہاں Tabbo سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بہت آگاہی کی ضرورت ہے۔ ذہنی بیماریوں کا علاج باقاعدہ دوائوں سے ممکن ہے۔ اس پر شرمندہ ہونے اور اسے چھپانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہمارے ’’لائف سٹائل‘‘ کی بدولت حالات یہ ہیں کہ نوجوانوں میں ذہنی دبائو کی بیماریاں بہت بڑھ رہی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ سکولوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس موضوع پر آگاہی کے لئے پروگرام ہونے چاہئیں اور ماہر نفسیات کا کلینک ہر محلے کی نکر پر ہونا چاہئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر گلی محلے میں جنرل فزیشنز نے اپنے کلینک کھول رکھے ہیں۔ خدارا ذہنی امراض کو قبول کریں اور ان کا علاج کروانے میں قطعاً شرمندگی محسوس نہ کریں۔