جب بھی رمضان آتا ہے‘ مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ اس عبادت کا ذکر کروں جو ان دنوں سب عبادتوں سے افضل ہے۔ چلئے یوں نہ کہیے۔ کوئی جمع تفریق نہ ہو جائے ویسے یہ میں اس لئے کہہ رہا تھا کہ اس میں حقوق العباد کا عنصر شامل ہے۔ ہمارے اشفاق صاحب نے ایک بابا جی کے حوالے سے یہ سنہری جملہ کہہ رکھا ہے کہ نماز کی قضا ہے‘ خدمت کی قضا نہیں۔ مرے منہ سے یہ جملہ جانے کیوں اس طرح نکلتاہے کہ عبادت کی قضا ہے‘ خدمت کی قضا نہیں۔ شاید اس لئے کہ حقوق اللہ پر تو بخشش ہو سکتی ہے مگر حقوق العباد پر پکڑ ذرا سخت ہو گی اور میں اس پر ہمیشہ فخر بھی کرتا ہوں کہ یہ ایک عالمی طور پر مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم پاکستانیوں میں خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسلام میں موأخات‘ اوقاف ‘ بیت المال کچھ ایسے تصورات ہیں جو ریاست مدینہ سے لے کر آج تک ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ خلافت عباسیہ میں تو ان اسلامی اداروں کی کارکردگی پر خاص کر اوقاف پر مغرب میں بہت کام ہوا ہے۔ آج بھی غزہ کی پٹی میں جب ظالم اسرائیلی طیارے بمباری کر کے سب کچھ تہس نہس کر کے چلے جاتے ہیں تو شام کو ہر کوئی اپنے گھر سے کھانے کا سامان لے کر گلی میں نکل آتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا‘ وہ بھی آ جاتا ہے سب مل کر کھاتے ہیں ایک خاندان کی طرح اور اس طرح مصیبت کی گھڑی مل جل کر گزر جاتی ہے۔ اس خیال سے میں نے اپنے ٹی وی شو میں ایک پروگرام صرف اس کے لئے مختص کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب تھے اخوت کے سربراہ ایک لیجنڈری شخصیت‘ جنہوں نے حکومت کا ایک بالکل نیا تصور پیش کیا ہے۔ مسجدوں میں بیٹھ کر لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے لئے مدد فراہم کرتا۔ وہ اب تک 83ارب روپے اس کام پر خرچ کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں تو یہ کام سود پر کیا جاتا ہے مگر یہاں بلا سود ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ قرض لے جانے والے قرض واپس بھی کرتے ہیں۔ یہ 100فیصد نہ سہی۔ 99.9فیصد یقینی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین آ آ کر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ غریب آدمی اتنی دیانت داری سے امانت لوٹاتا بھی ہے اور جب اپنے پائوں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو اس ادارے کی اپنی کمائی سے مدد کرتا ہے تاکہ یہ صدقہ جاریہ دوسرے لوگوں تک بھی پہنچے۔ اب تو انہوں نے اخوت یونیورسٹی کے نام پر ایک تعلیمی ادارہ بھی بنا رکھا ہے تاکہ غریب بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیم مفت فراہم کی جا سکے۔ بے مثال کام کئے ہیں ان لوگوں نے۔ دوسرے احسان اللہ وقاص تھے الخدمت کے سینئر نائب صدر یہ بھی ایک کمال کا ادارہ ہے۔ یوں سمجھیے کہ جماعت اسلامی نے اپنے خدمت خلق کے شعبہ کو الگ کر کے آزادانہ طور پر استوار کیا ہے۔ اب یہ ادارہ اس ملک کا ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ ہے۔ صحت اور تعلیم میں غیر معمولی کاموں کے علاوہ انہوں نے یتیم بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا ایک بے نظیر ادارہ بنا رکھا ہے۔ ملک بھر میں کوئی 12ہزاربچوں کی کفالت کرتے ہیں ۔خود ان کے اپنے کیمپس بھی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بچے جہاں بھی ہوں وہیں ان کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں وہ اپنے خاندان میں رہتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں امداد دی جاتی ہے۔ سیلاب آ جائے یا زلزلہ یا تباہی کے کوئی اور آثار ہویدا ہوں ان کے ملک میں پھیلے رضا کار فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ضروری اشیا کے سٹور بنا رکھے ہیں جہاں خیمے وغیرہ بھی موجود ہیں تاکہ فوراً مشکل پیش نہ آئے۔ یہ پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں مدد کے لئے جاتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ غیر سیاسی اور غیرمذہبی بنیادوں پر کام کرنے والا ایک وقیع ادارہ ہے۔ تیسرا ادارہ الغزالی ٹرسٹ ہے۔ سید عامر جعفری اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت کوئی 700سکول چلا رہے ہیں۔ یہ سارے سکول دیہی علاقوں میں ہیں جہاں مفت اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے لئے یہ علاقائی طور پر نگران بورڈ بھی بنا دیتے ہیں اور مرکز میں بیٹھ کر سائنسی طور پر اس کا جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے بھی 84ادارے گویا گود لے رکھے ہیں۔ ان کے اخراجات بھی سنبھالتے ہیں اور اسے بڑے جدید سائنسی انداز سے چلاتے ہیں۔ ان کے ہاں طلبہ کی تعداد 98ہزار ہے جو دور درازعلاقوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تین ادارے ایسے ہیں جو مری اپنی مختصر سی فہرست میں شامل ہیں جن کی اوقات کے مطابق مدد کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس دن ایک چوتھے ادارے سے بھی تفصیلی آشنائی ہوئی۔ تعارف تو پہلے ہی تھا مگر محمود احمد صاحب نے جس طرح تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح معذور بچوں کے لئے سن رائزنگ نام کے اس ادارے کو لے کر ایسا کام کر رہے ہیں جس کی طرف ہمارے ہاں بہت کم توجہ رہی ہے۔ معذور بچوں کی دیکھ بھال ان کی تربیت‘ انہیں زندگی کی دوڑ میں شامل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی ملک میں بے شمار ادارے ہیں ایک ڈاکٹر آصف جاہ ہیں۔ جو کسٹمز کیئر کا ایک ادارہ چلا رہے ہیں بہت دنوں سے ان سے رابطہ نہیں ہے۔ بڑے فعال اور مستعد ہیں۔ دو اداروں سے تو میں انہی دنوں واقف ہوا ہوں۔ ایک غالباً کلیپ نام کا ادارہ جو کٹے ہوئے ہونٹوں اور جڑے ہوئے تالوئوں والے بچوں کا فی سبیل اللہ آپریشن کرتے ہیں۔ میں نے وہاں افغانستان تک سے آئے ہوئے بچے دیکھے ہیں وہ اس ادارے کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔غالباً کچھ بندوبست بھی ہو گیا ہے۔ دوسرا ادارہ سدا(یا صدا) کے نام سے ہے گونگے ‘ بہرے بچوں کے مشکل اور جدید ترین آپریشن۔ پھر ان بچوں کی تربیت یہ ایک الگ کام ہے اس طرف توجہ نہ دی جائے تو وہ بچے وقت گزرنے کے ساتھ معاشرے پر محض ایک بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس ملک میں خدمت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ کراچی میں (Siut)سندھ انسٹی ٹیوٹ اور یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ ایک غیر معمولی ادارہ ہے جسے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کمال محنت سے ایک مثالی ادارہ بنا دیا ہے۔ اس کا ماڈل کمال کا ہے جو آئے گا اس سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی۔ اس لئے کہ بقول ان کے ہم کون ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ آپ افورڈ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ڈائیلائسز‘ ٹرانسپورٹ سب مفت ہو گا۔ آپ کو اللہ نے توفیق دی ہے تو ادارے کو عطیہ دے دیں۔ جب میں نے یہ ادارہ پہلی بار دیکھا تھا تو اس کا بجٹ ملک کے ہر ادارے سے زیادہ تھا اورلوگوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ سنا ہے کہ کراچی میں ایک انڈس ہسپتال ہے جو اسی ماڈل پرنہ سہی‘ اس سے ملتے جلتے ماڈل پر چل رہاہے۔ مفت علاج کا یہ سب سے بڑا اور معتبر ہسپتال ہے۔ سنا ہے اب اس کی کئی شاخیں بھی بن گئی ہیں۔ ایک نہیں بے شمار ادارے ہیں۔ شوکت خانم ہے‘ ایدھی ہے‘ چھیپا ہے ‘المصطفوی ٹرسٹ ہے اور ہاں یاد آیا لاہور میں گھرکی ٹرسٹ ہسپتال ہے‘ جس پر ہمارے شہرہ آفاق آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عامر محمود نے ایک نئی دنیا آباد کر رکھی ہے۔ آج کل وہاں سائبر نائف لگانے کا ایک پروجیکٹ چل رہا ہے جو کوئی 45کروڑ کا منصوبہ ہے۔ اس سے اس ادارے کی افادیت میںاور اضافہ ہو گا۔ میں اس ہسپتال گیا ہوں اور وہاں کے ڈاکٹروں کی محنت خلوص اور لگن کے آثار دیکھے ہیں۔ کن کن اداروں کا ذکر کروں۔ اللہ توفیق دے تو اپنے گرد پھیلے ہوئے ان اداروں میں سے جس کی بھی جتنی مدد کر سکتے ہو ضرور کیجیے۔ بے شمار ادارے ہیں جن کی کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ابھی گزشتہ دنوں میں وزیر آباد سے بھی آگے سیالکوٹ روڈ پر مولانا ظفر علی خاں کے کرم آباد میں مزار سے ذرا آگے غالباً ایک قصبے سوہدرہ گیا۔ وہاں مسلم ہینڈ نامی ایک تنظیم نے ایک کالج کے نئے بلاک کا افتتاح کیا ہے۔ لڑکوں کے الگ‘ لڑکیوں کے لئے الگ‘ ہوسٹل کی سہولت بھی۔ جنگل میں منگل کہہ لیجے۔ گورنر چودھری سرور اس کا افتتاح کرنے آئے تھے۔ بہت سے لوگ بہت سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اسی عمل خیر کے نتیجے میں قائم ہے۔ خاص کر صحت اور تعلیم کے شعبے میں یہ ادارے نہ ہوں تو جانے ہمارا کیا بنے۔ اس موقع پر مجھے ایک ادارہ اور یاد آیا جس کا ہم اب تذکرہ بھی نہیں کر سکتے۔ جب کشمیر میں زلزلہ آیا اورنیٹو کے لوگ وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود ہیں جہاں انسانوں کا پہنچنا ممکن نہیں جب انہیں پتا چلا کہ یہ جماعت الدعوۃ کے لوگ ہیں تو ان کی سٹی گم ہو گئی۔ پھر مگر یہ ہوا کہ جب واپس گئے تو انہیں اعلیٰ کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دے کر گئے یہاں جب پنجاب میں سیلاب آیا۔ تو الخدمت جیسا ادارہ یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ خدمت میں ہم سے بھی آگے تھے اب کی بار ان پر مگر پابندی ہے کہ وہ خدمت نہیں کر سکتے۔ انہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ کیا حرج ہے کہ ان کو کم از کم یاد تو کر لیا جائے۔ مری اس فہرست میں بہت سے لوگ رہ گئے ہوں گے۔ سب کا ذکر بھی نہیں ہو سکتا۔ مرا پیام تو بس اتنا ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کا وقت آ گیا ہے۔ خدا کے لئے کسی سے پیچھے نہ رہیے۔ ہم بڑی سخی اورفراخ دل قوم ہیں خدا آپ سے راضی ہو اور آپ کی اور ہماری سب مشکلات کا خاتمہ کرے۔ یہ ملک پر مادی بدحالی کا دور ہے ۔ ایسے میں اپنے مال سے نیکی کے کاموں میں حصہ ڈالنے کی اور بھی فضیلت ہے۔ کیا جانے خدا اس کے صدقے اس قوم کی مالی مشکلات کو بھی آسان کر دے۔