روز ان پر تبریٰ ہوتا رہتا ہے ‘ آج ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔ ہم ہر انتہا پسندی کے ڈانڈے مذہب سے جوڑ کر چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ ان جنونیوں نے ملک کا ستیا ناس کر دیا ہے اس کی تازہ ترین مثال ان جنونیوں کی ہے جو گزشتہ دنوں ملک بھر میں دھرنا مار کر بیٹھے ہوئے تھے۔ گزشتہ دور میں بھی انہوں نے دس بارہ دن تک دارالحکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں میں اس کا تجزیہ نہیں کرنا چاہتا کہ اس صلح جو طبقے میں اس رجحان نے کیوں شدت پکڑی اور یہ کیسے مین سٹریم سیاست میں آئے۔ اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ اس وقت تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو یہ کہتے تھے کہ ہم بارود والے نہیں درود والے ہیں‘ وہ کیسے سیاست میں اترے۔ دراصل میں اس وقت تین مذہبی گروپوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ‘جو دن رات انسانیت کی خدمت میں لگے ہیں اور ہم ان کی اس شکل سے باخبر ہی نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ اسلام میں جو خدمت کا تصور ہے‘ اسے یہ لوگ کیسے پورا کرتے ہیں۔ ہمارے دانشور ادیب اشفاق احمد ایک بہت خوبصورت بات کہا کرتے تھے وہ بابا جی سے ملنے گئے تو انہوں نے اصرار کیا کہ بیٹا کھانا کھا کر جائو کھانا سامنے رکھا‘ تو مغرب کی اذان ہو گئی۔ بابا جی پنکھا جھلتے رہے اور جماعت کھڑی ہو گئی۔ شرمندگی میں مہمان نے کہا۔ حضور آپ نماز پڑھ لیجیے۔ جواب دیا ‘ بیٹا نماز کی قضا ہے‘ خدمت کی قضا نہیں۔ میں یہ فقرہ ادا کرتے اکثر جھوم جھوم جاتا ہوں اور بعض اوقات تو جوش جذبات میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ عبادت کی قضا تو ہے‘ خدمت کی نہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ میرا لاشعور میری زبان سے یہ فقرہ اس طرح کیوں نکلواتا ہے۔ آپ ہر مسلمان عالم دین سے جا کر پوچھیے ‘وہ آپ کو بتائے گا کہ آخرت میں حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پرجواب طلبی ہو گی اس حقوق العباد پر میرا ایمان اتنا پختہ ہے کہ ایک بار میں نے ایک فکری گفتگو کے دوران یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ میں انسانی حقوق کو ہرگزہرگز نہیں مانتا۔ استفسارپرعرض کیا کہ میں انسانی حقوق کے تصور کے بجائے حقوق العباد کا قائل ہوں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ انسانی حقوق انسانوں کی فلسفیانہ کاوش کا نتیجہ ہیں‘ جن میں خدا کا تصور نہیں بلکہ خدا کے تصور کی نفی ہے اور حقوق العباد اوراللہ کے بندوں کے حقوق ہیں۔ جی ہاں ‘ اللہ کے بندوں کے۔ دنیا مانتی ہے۔ ماہرین عمرانیات کی متفقہ رائے ہے کہ اسلام میں وقف‘ موأخات اور اخوت کے تصور نے بڑے بڑے کمالات دکھائے۔ آج بھی غزہ کی پٹی میں جب اسرائیلی بمباری کرتے ہیں تو لٹے پٹے محلوں میں لوگ اپنے اپنے گھروں سے دستیاب کھانا لے کر باہر آ جاتے ہیں۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا‘ وہ بھی نکل آتا ہے اور سب مل کر کھاتے ہیں‘ ایک خاندان کی طرح‘ مواخات مدنیہ کا نیا روپ جو انہیں سامراج کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ہماری درگاہوں اور خانقاہوں میں جو بلا تفریق لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اب ایسی ہی ایک مثال میں یہاں دینا چاہتا ہوں۔ دو چار دن پہلے کی بات ہے کہ ایک دن صبح سویرے مجھے مریدکے جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ برادرم ضیاء الحق نقشبندی ہم سفر تھے۔ وہاں مجھے ایک آئی کیمپ کے افتتاح کی سعادت نصیب ہونا تھی۔ دو چار روز پہلے ہی عبدالرزاق ساجد تشریف لائے تھے جو برطانیہ میں مصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ ایسے ہی کیمپ لگا کر لاکھوں مریضوں کا علاج کروا چکے ہیں وہ جگہ جگہ کیمپ لگا کر ہزاروں مریضوں کو سفید موتیا سے نجات دلا چکے ہیں۔ آج بھی میں جب مریدکے پہنچا تو سینکڑوں مریض وہاں کیمپ میں موجود تھے۔ یہ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ مرے لیے نیا نہیں ہے۔ کراچی میں حنیف طیب اس کے مرکزی سربراہ ہیں۔ ان سے پرانی نیاز مندی ہے۔ جن دنوں میں کراچی میں وارد ہوا تھا تو ان دنوں شاہ احمد نورانی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ حنیف طیب انہی کے ایک فعال کا رکن تھے۔ ایک دن پتا چلا کہ ان کی زیر قیادت جمعیت العلمائے پاکستان نے بھی اپنی ایمبولینس سروس شروع کر دی ہے۔ پہلے پہلے تو اسے دو الگ الگ تناظر سے دیکھا۔ ایک تو یہ کہ سیاست کے میدان میں وہاں جمعیت کے مدمقابل جماعت اسلامی تھی اور ان کا خدمت خلق کا کام بہت وسیع تھا۔ اس لیے سوچا کہ یہ ان کے مقابلے میں اپنا خدمت خلق کا دائرہ بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ حنیف طیب کا تعلق چونکہ میمن کمیونٹی سے ہے اور اس کمیونٹی میں خدمت کی بڑی مضبوط ریت ہے۔ ایدھی اور چھیپا دونوں کا تعلق اسی برادری سے ہے ‘ اس لئے شاید اس شوق کی خاطر ان کو آگے کیا گیا ہے۔ شہید ظہور بھوپالی ان دنوں جے یو پی کے روح رواں تھے بعض لوگوں کے خیال میں وہ زندہ رہتے تو کراچی کے حقوق کے لیے کسی کو ایم کیو ایم بنانے ہمت نہ ہوتی۔ ظہور بھوپالی نہایت سلیقے اور احتیاط کے ساتھ یہ کام کر سکتے تھے۔ کسی فتنہ و فساد کا بھی ڈر نہ ہوتا۔ بہرحال اس وقت یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ کام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ دنیا بھر سے ان کے لوگ جگہ جگہ اپنے اپنے انداز میں حقوق العباد کی ایسی شمعیں روشن کرتے جائیں گے۔ مریدکے میں ایک حاجی امجد چشتی ہیں جن کی رائس ملز ہیں۔ یہاں وہ اس آپریشن کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔ ان کے بھائی رمضان چشتی صاحب اس وقت کیمپ میں موجود لوگوں کی خدمت میں مصروف تھے پتا چلا کہ وہ ہر ربیع الاول میں بچیوں کی اجتماعی شادیاں کراتے ہیں۔ ان کے لیے جہیز بھی تیار کرتے ہیں۔ سارا سال اس کی تیاری کرتے ہیں۔ لکڑی خود خریدتے ہیں تاکہ فرنیچر پر خرچ کم آئے باقی سامان کی بھی خریداری اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں رعایت ملے۔ اس طرح ڈیڑھ لاکھ فی کس خرچ کو ایک لاکھ تک لے آتے ہیں۔ کھانے کا انتظام ‘ بچیوں کی رخصتی تک پورا دن اس کارخیر کی تکمیل میں گزرتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ یہاں میں صرف دوتین مذہبی طبقات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے ہمیشہ خود کو انتہا پسندی سے دور رکھا۔ سیاست بھی کی تو پاکستان بننے سے پہلے وہ سیاست کی جس نے تحریک پاکستان کو قوت دی۔ ان میں سے کسی ایک پر بھی کانگرسی مولوی ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی جب پاکستان کو تاریخی نظریاتی معرکہ درپیش ہوا تو یہ کھل کر یکسو ہو کر ڈٹ گئے۔ مولانا بھاشانی نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بائیں بازو کی کانفرنس منعقد کی تو انہوں نے اس جگہ جوابی کانفرنس منعقد کر کے اس بات کا اعلان کیا کہ علماء کا وزن کس پلڑے میں ہے۔ کانگرسی اس وقت بھی تنہا ہو گئے۔ یہ تو ہوا ایک گروپ جنہوں نے بندوق اٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ کام حکومت کا ہے۔ طعنے سہے مگر وہ ڈٹے رہے۔ دوسری طرف حافظ سعید جو کبھی لشکر طیبہ ہوتے تھے‘ پھر جماعتہ الدعوۃ کا روپ اختیارکرتے ہیں اور آخر میں فلاح انسانیت کی شکل میں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت کا تذکرہ بھی بہت طویل ہے۔ کشمیر میں زلزلہ آیا‘ نیٹو نے اپنے لوگ بھیجے تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جہاں انسان کا پہنچنا آسان نہیں وہاں یہ لوگ خدمت کے لیے موجود ہیں۔ پہلے تو وہ حیران ہوئے کہ یہ انسان ہیں یا جن‘ پھر خوف سے کانپنے لگے کہ یہ تو دہشت گرد ہیں۔ کہا ہم ان کے ساتھ کام کریں گے؟ اور جب رخصتی کا وقت آیا تو ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں سرٹیفکیٹ دے کر گئے۔ اس طرح جب پنجاب میں سیلاب آیا تو سب نے اعتراف کیا کہ جن لوگوں نے پانیوں میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچایا۔ ان تک خوراک پہنچائی وہ اسی دہشت گرد تنظیم کے نمائندے تھے۔ جہاں کشتی نہ چلتی تھی۔ یہ پانیوں سے گزر کر جاتے تھے۔ ان کے جلو میں ایک اور تنظیم بھی کام کر رہی تھی۔ یہ الخدمت والے لوگ تھے۔ جماعت اسلامی نے اپنی خدمت خلق کی تنظیم کو الگ کر دیا ہے تاکہ وہ آزادی سے غیر سیاسی انداز میں کام کرے۔ انہوں نے عالمی سطح پر این جی او کے انداز میں رابطے قائم کئے۔ سیلاب کے بعد انہوں نے باقاعدہ ایک ڈپو بنایا‘جہاں کشتیاں‘ خیمے اور اس طرح کا ہنگامی سامان محفوظ کر لیا کہ وقت ضرورت کام آئے ان کے میڈیکل کیمپ‘ یتیموں کے لیے ان کا پورا نظام‘ ملک سے باہر ان کی خدمات ‘ برما سے لے کر ترکی کے زلزلے تک ان کی خدمات سب غیر معمولی ہیں۔ بتانا میں صرف یہ چاہتا ہوں۔ مذہب انتہا پسند نہیں خدمت انسانیت ہی سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے ہم انہیں کیوں ان کاموں پر لگا دیتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جس کے دل میں اللہ کی محبت ہے وہ اس کے بندوں کا خود کو خادم سمجھتا ہے۔ ہاں‘ ناموس رسالتؐ کے بارے میں جب انہیں نظر آتا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتہ ہو رہا ہے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں۔ پھر یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم ان سے کچھ دوسرے کاموں کی توقعات لگا بیٹھتے ہیں۔ اس وقت ان کا تذکرہ کر کے میں اپنے مقصد سے نہیں ہٹنا چاہتا۔ یاد رکھیے مذہب میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ مذہب‘ محبت ہے‘ مذہب خدمت ہے۔ نیکی کے یہ سارے کام عبادت ہیں۔ غلطی کہیں اور سے ہوتی ہے۔