پہلے وہ پڑھ لیجیے جو خدیجہ صدیقی نے بیان کیا’’شاہ حسین میرا کلاس فیلو تھا۔ کچھ عرصہ ہم میں بات چیت رہی۔ پھر اس کے جارحانہ رویے کے باعث میں نے بول چال بند کر دی۔ میری بہن کی شادی تھی مگر وہ مجھے ملاقات کے لیے دھمکا رہا تھا۔ ایک روز میں اپنی چھ سالہ بہن کو سکول سے لینے گئی۔ ہماری کار چلنے کو تھی میں نے اپنی طرف والا دروازہ ابھی بند نہیں کیا تھا کہ ایک ہیلمٹ پہنے شخص نے مجھ پر خنجر سے وار کرنے شروع کر دیے۔ میری بہن نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا۔ وہ بھاگ کر باہر نکلی اور سامنے سے آنے والی ٹریفک کے بیچ کھڑی ہو کر میرے لیے مدد مدد پکارنے لگی۔ وہ میری جان بچانے کے لیے خطرات کی پرواہ کیے بغیر چلا رہی تھی۔ میرا ڈرائیور دوسری طرف سے آیا تب تک میرے گلے اور سینے پر کئی وار ہو چکے تھے۔ ڈرائیور نے حملہ آور کو پیچھے دھکیلا اور اس کا ہیلمٹ اتار دیا۔ میں نے بند ہوتی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ شاہ حسین تھا‘‘ یہ واقعہ جس روز پیش آیا میں ایبٹ روڈ پر واقع اپنے سابقہ دفتر میں موجود تھا۔ کسی نے آ کر بتایا کہ ایک لڑکی کو تھوڑے فاصلے پر شملہ پہاڑی کے پاس کسی نے سڑک کے بیچ خنجر مارے ہیں۔ وہ لڑکی یہی خدیجہ صدیقی تھی۔ معلوم ہوا کہ ملزم شاہ حسین کا والد ایک بااثر وکیل ہے۔ گزشتہ برس ماتحت عدالت نے اسے جرم ثابت ہونے پر سات سال قید کی سزا سنا دی۔ ملزم نے سزا میں کمی کی اپیل کی جس پر سزا کم کر کے چار سال کر دی گئی۔ پھر لاہور ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دی گئی۔ جس کا فیصلہ چند روز قبل سنایا گیا۔ جسٹس سردار نعیم نے ثبوت ناکافی ہونے کا کہہ کر ملزم کو بری کر دیا۔ ایک بار پھر خدیجہ صدیقی کی طرف چلتے ہیں۔ خدیجہ پاکستان کے نظام انصاف سے مایوس ہو رہی ہے اس کے گھر والوں اور دوستوں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ اس مقدمہ پر انصاف حاصل کرنے کے لیے اب تک وہ بیس لاکھ سے زائد کی رقم خرچ کر چکی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل بہت شدید آیا ہے۔ اخبارات ٹی وی چینلز اور ریگولیٹ شدہ دوسرے ذرائع ابلاغ قانونی مسائل کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کے محترم جج کے فیصلے پرمحتاط انداز سے تبصرہ کر رہے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا عوامی فورم ہے وہاں کئی لوگوں نے عدالت عالیہ کو توہین کا نوٹس بھیجنے کا چیلنج کرتے ہوئے اس فیصلے پر رائے دی ہے۔ سوشل میڈیا کا دبائو تھا کہ محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار نے ملزم کی بریت کے فیصلے کا نوٹس لیا۔ اس کہانی کو یہاں روک لیجیے پہلے چند دوسرے واقعات پیش کرتا ہوں۔ کراچی میں ایک نوجوان نے اپنی بہن کو ہراساں کرنے والے امیر زادے کی سرزنش کی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت اسلحہ لے کر آگیا اور شاہزیب کو قتل کر دیا۔ قاتل کا نام شاہ رخ جتوئی ہے۔ اس کا باپ وکیلوں اور پورے نظام کو خریدنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس نے صوبائی حکومت کی طاقت کو اپنے لیے برتا۔ سفید پوش خاندان کے ساتھ سوشل میڈیا کے لاکھوں ہمدرد تھے لیکن یہ ہمدرد صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر ظالموں کو برا بھلا کہہ سکتے تھے۔ اداروں کو حرکت میں آنے کا کہہ سکتے تھے، حکومت کو غیرت دلا سکتے تھے۔ شاہ رخ جتوئی کو چند ماہ پہلے باعزت بری کیا گیا تو وہ وکٹری کا نشان بناتا سوشل میڈیا کے لاکھوں صارفین کا منہ چڑا رہا تھا۔ لاہور کے معروف علاقے میں کانجو خاندان کا ایک عادی تشدد پسند بگڑا رئیس زادہ راہ چلتے ایک بیوہ ماں کے سہارے اور تین بہنوں کے اکلوتے بھائی کو گولیاں مار دیتا ہے قاتل اور مقتول ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ کوئی پرانی دشمنی یا مخاصمت نہ تھی۔ صرف سڑکوں پر ہونے والی روز مرہ تلخ کلامی نے ایک گھر تباہ کر دیا۔ سیاستدانوں نے کھیل کھیلا۔ میٹرو وزیر اعلیٰ نے ایک قابل اعتماد پولیس افسر کی ڈیوٹی لگائی جس نے ہمدرد بن کر مظلوم خاندان پر اتنا دبائو ڈالا کہ دکھی ماں نے سپریم کورٹ سے کہہ دیا کہ اس کی جوان بیٹیاں ہیں وہ اپنے بے گناہ اکلوتے بیٹے کے قاتلوں سے مزید نہیں لڑ سکتی‘‘ سوشل میڈیا نے اس ماں کا ساتھ دیا اس کے لیے پوسٹس کیں‘ ٹوئٹس کئے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ کیا کسی ظالم کو سزا ملی؟ کیا نظام بدلا؟ کیا انصاف ہوتا نظر آیا؟ کیا امیر کا قانون غریب کے قانون کے برابر ہوا’؟ کیا تھانے‘ کچہری اور جیلوں میں مظلوم کی داد رسی ہوئی۔ یقینا ہم نے جس فرض شناسی اور قانون پسندی کی توقع اپنے اداروں‘ اپنی پولیس اور عدالتوں سے کر رکھی ہے وہ پوری نہیں ہو سکی۔ لاہور ہائی کورٹ سے ملزم شاہ حسین کی بریت کا چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے نوٹس لیا تو لاہور ہائی کورٹ بار کا جنرل ہائوس اجلاس ہوا۔ شاہ حسین کے والد سینئر وکیل تنویر ہاشمی نے ایک قرار داد پیش کی کہ چیف جسٹس سوموٹو نوٹس لینے کی شرائط و معیار واضح کریں ۔ ذرائع ابلاغ میں اس اجلاس کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہائی کورٹ بار نے چیف جسٹس سے خدیجہ کیس کا نوٹس نہ لینے کا کہا۔ پاکستان کی سرزمین رزق سے بھری ہے۔ خوشبو اور حسن کی فراوانی ہے مگر ناانصافی معاشرے کو چاٹ رہی ہے‘ ہم صحافی‘ وکیل‘ پولیس افسر اس لیے بنتے ہیں کہ اپنے اور اپنے خاندان کی قانون شکنی کو تحفظ دے سکیں۔ جاگیر دار اور صنعت کار ہمیں خرید لیتا ہے۔ ہم اپنی تعلیم‘ ریاست سے عہد اور دینی احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ایک ایسے جرائم پیشہ بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پیشہ وارانہ اثر و رسوخ کا خنجر آ گیا ہے جو ہم راہ چلتی خدیجہ پر چلا دیتے ہیں۔ میرے دوست توقع کر رہے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم اور معروف حلقوں کا تجزیہ کروں‘ مجھے یہ فکر ہے کہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والے غیر موثر کیوں ہو رہے ہیں۔ نوجوان وکلاء کو لاہور ہائی کورٹ بار سے ضرور گزارش کرنی چاہیے کہ وہ ایسے فیصلے نہ کرے جو انصاف میں رکاوٹ کا تاثر پیدا کریں اور مظلوم عدالتوں، وکیلوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود انصاف کرنے لگیں۔ انوارالحق پنوں سے کسی زمانے میں اچھا رابطہ رہا ہے۔ امید ہے کہ وہ سماج کو مایوسی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔خدیجہ مزاحمت کا استعارہ ہے اسے تنہا نہیں رہنا چاہیے۔