رسالت اور مصحف کی عظمت و تقدیس آخری سرخ لائن ہے، اسے عبور کرنے کی جو بھی کوشش ہوگی، روک دی جائے گی، خواہ کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ عافیت اور جان کس کو عزیز نہیں ہوتی لیکن کچھ چیزیں زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ جتنا اور جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیا جائے، اتنا ہی عالمی امن کو سازگار ہوگا۔ بدبخت ابو لہب کے فرزند نے رحمتہ اللعالمینؐ کی شان میں گستاخی کی۔ سرکارؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا ’’یا رب اپنے کتوں میں سے کوئی کتا اس پہ مسلط کردے‘‘ پھر اس کی زندگی زندگی نہ رہی۔ ہمہ وقت ایک خوف اس پہ طاری رہتا۔ ایک جملہ ہمہ وقت وہ دہرایا کرتا ’’محمدؐ مجھے مار ڈالیں گے‘‘ تجارتی کاررواں کے ساتھ سفر کرتا تو سینکڑوں ہم نفس ہم رکاب ہوتے۔ اس کے باوجود اندیشوں سے نجات نہ مل سکی۔ نیند بگڑ گئی۔ کھانا پینا دوبھر ہو گیا۔ بس یہی جملہ وردِ زبان رہتا۔ ’’محمد مجھے مار ڈالیں گے‘‘ بلادِ شام کی مسافت میں، جہاں ہندوستان اور چین سے درآمد گرم مصالحے اور دوسرا سازوسامان عرب تاجر بازنطینی سلطنت کے لیے برآمد کیا کرتے، ایک پڑاؤ میں المناک موت وہ مارا گیا۔ اہتمام سے قافلے کے وسط میں پڑا تھا کہ چھلانگ لگا کر ایک صحرائی شیر اس پہ جا پڑا۔ چیر پھاڑ ڈالا۔ عبرت حاصل کرنے والوں کو عبرت پانی چاہئیے تھی۔ اس امر کی کوئی شہادت مگر نہیں ملتی کہ ان میں سے کوئی تائب ہوا ہو۔ انسانوں کی بدترین بدقسمتیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اذیت ناک واقعات کے اسباب و عوامل پہ کم ہی غور کرتے ہیں۔ مغلوب اور مجبور ہو کر ہی آدمی سیکھتے ہیں۔ وقت کا پہاڑ جب ان کے سروں پہ جھک جاتا ہے۔ یونان کے فقید المثال فلسفی ارسطو نے کہا تھا: انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔اکثریت وہی کرتی ہے، جو اسے بتایا جاتا ہے۔ کم کم خود اپنے ذہن سے سوچتے ہیں۔ سلمان رشدی کے واقعے میں اہلِ مغرب کے لیے غور و فکر کا سامان ہے۔ سمجھنے کی کوشش کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمان اور تو کچھ بھی گوارا کر سکتے ہیں مگر قرآنِ کریم اور سرکارؐ کی توہین کی تاب نہیں لا سکتے۔ اسلام کی عمارت انہی دو بنیادوں پہ کھڑی ہے۔ قرآنِ کریم سے پہلے نازل ہونے والی تینوں کتابیں مسخ ہو گئیں۔ انجیل ان میں سے آخری تھی۔انیسویں صدی کے دوسرے نصف تک اس کے درجنوں متون دستیاب تھے۔ کیتھولک چرچ نے ہولی اوکس نامی ایک پادری کو ایک ’’مستند‘‘نسخہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ سالہا سال جتا رہا۔ نتیجہ تمام اندازوں کے برعکس نکلا۔ بائبل کو اس نے اللہ کا کلام تسلیم کرنے سے انکار ہی نہ کیا، سرے سے خالق کا منکر ہی ہو گیا۔ 1895ء میں اپنی تحقیقات کا نچوڑ اس نے شائع کیا تو مذہب سے بغاوت کا علَم لہرایا۔ یہی وہ شخص تھا، سب سے پہلے جس نے ’’سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس نے کہا کہ کوئی ایسا شخص سیکولر نہیں کہلا سکتا، جو خدا پہ یقین رکھتا ہو ’’جہاں سمندر ہو، وہاں خشکی نہیں ہوتی اور جہاں خشکی ہو، وہاں سمندر کا وجود نہیں ہوتا‘‘ اس نے لکھا۔ مغرب سے مرعوب ہمارے نام نہاد لبرل دانشوروں میں سے اکثر اس پسِ منظر سے واقف نہیں یا دیدہ دانستہ نظر انداز کرتے ہیں۔ کاروبارِ حکومت کو وہ چرچ اور حکمرانوں کی آویزش کے پسِ منظر میں دیکھتے ہیں۔ کمال سطحیت اور بے ذوقی سے اسلامی معاشروں پر بھی وہ من و عن اس کا اطلاق کرتے ہیں۔سامنے کی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں چرچ ایسے ادارے کا کبھی وجود نہ تھا۔احترام کے جو مستحق تھے، ان کا احترام کیا۔استثنائی حالات کے سوا کبھی حکومت نہ سونپی۔ چرچ تو وہ تھا، جس کی تصدیق کے بغیر مسیحی دنیا کا کوئی حکمران جائز قرار نہ پاتا۔ صلیبی جنگوں پر پوپ کی مہر ثبت تھی۔ پرشیا، فرانس، برطانیہ اور فرانس کے جنرل اور شہزادے نور الدین زنگی اور صلاح الدین کے خلاف اتفاق رائے سے تب بروئے کار آئے،جب ایک کے بعد دوسرے پوپ نے ان کی پشت پہ ہاتھ رکھا۔ پانچ اور دس پونڈ لے کر صدیوں تک پادری حضرات جنت کے پروانے جاری کیا کرتے۔ دنیاء ِ اسلام میں جب بھی جہاد کا غلغلہ اٹھا، علما ہم رکاب رہے لیکن صلاح الدین ایوبی سے لے کر ٹیپو سلطان تک کوئی حکمران کبھی مدارس، مکاتب اور مساجد کا محتاج نہ تھا۔ آزادی کی بعض تحریکوں میں علما کا کردار غیر معمولی رہا مثلاً 1857ء کا ہندوستان، رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایرانیوں کی بغاوت، افغانستان میں مگر یہ کابل یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے،جو بغاوت کی بنیاد بنے۔ سویت یونین سے امڈتے ہوئے سوشلزم اور ملوکیت کی آویزش میں وہ خود کو غیر جانبدار قرار دیتے۔ خفیہ طور پر قائم کی گئی اس تنظیم کا نعرہ یہ تھا: ہم’’بے طرف‘‘ ہیں۔ آگ کی طرح وہ تعلیمی اداروں میں پھیل گئے۔ یہیں سے وہ تحریک اٹھی، ساڑھے تین سو برس سے بڑھتے پھیلتے روس کو جس نے پسپا کر دیا۔ علما کی قیادت میں طالبان تو تب بروئے کار آئے، گلبدین حکمت یار کی ملک گیر حزبِ اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے جب با رسوخ مذہبی خاندانوں کی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں پہ پشت پناہی کی۔پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف جب عرب اور امریکی اشاروں پہ حرکت کرنے لگے۔ مجاہدین کی باہمی کشمکش جب خوں ریز ہو گئی۔ انارکی جب پھیل گئی۔ بدامنی حد سے بڑھی اور مقامی کمانڈر من مانی کرتے ہوئے حیوانیت پہ اتر آئے۔ جہاں تک نبوت اور قرآن کی تقدیس کا سوال ہے، امت اس پہ متحد رہی اور ہمیشہ متحد رہے گی۔ سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ اور اس پہ تین ملین ڈالر انعام کا اعلان سرزمینِ ایران سے ہو اتھا۔ عالمِ عرب، مسلم برصغیر یا مشرقِ بعید کے مسلم ممالک سے نہیں، جہاں انڈونیشیا کی سب سے بڑی مسلم حکومت قائم ہے۔ ملائیشیا جہاں موجود ہے، جس کی قیادت صاحبِ حمیت مہاتیر محمد کے ہاتھ میں تھی؛حتیٰ کہ ترکی بھی نہیں۔ وہ واحد ملک جس کے سپر پاور بننے کا امکان موجود ہے۔ ہمارے لبرل دانشور یہی بنیادی نکتہ نظر انداز کرتے ہیں کہ حالات کے ہاتھوں مسلمان کتنا ہی مجبورہو، کسی حال میں سرکارؐ کی توہین پہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ عمران خان کی دعوت پر مہاتیر محمد2008ء میں اسلام آباد آئے تو ایک جواں سال خاتون نے، جو غالبا کسی این جی او کی نمائندہ تھی، ان سے کہا: قرآن مجید میں اگر کوئی کمی ہے تو ہمیں اس میں تبدیلی کر دینی چاہئے۔ رنجیدگی کا ایک رنگ مہاتیر محمد کے چہرے پہ آکے گزر گیا۔ فوراً ہی خود کو انہوں نے سنبھالا اور نہایت محکم آواز میں یہ کہا: غلطی ہمارے اندازِ فکر میں ہے، قرآن میں نہیں اور تفصیل سے گریز کیا۔ بندر کو ادرک کا سواد کیا بتاتے۔احساسِ کمتری کے مارے، دبے، سہمے سکڑے اور مرعوب ہمارے لبرل دانشوروں اور مغرب کو آخر ایک دن ادراک ہو گا کہ رسالت اور مصحف کی عظمت و تقدیس آخری سرخ لائن ہے، اسے عبور کرنے کی جو بھی کوشش ہوگی، روک دی جائے گی، خواہ کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ عافیت اور جان کس کو عزیز نہیں ہوتی لیکن کچھ چیزیں زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ جتنا اور جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیا جائے، اتنا ہی عالمی امن کو سازگار ہوگا۔