سامنے کا منظر یہ ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد ظاہر کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ حکومتی عہدیداروں‘ سکیورٹی اداروں اور سیاسی نمائندوں نے ڈسکہ الیکشن کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف وزی کی۔ ایک جھگڑا یہ ہے کہ مریم نواز کی دھمکیوں کے زیر اثر لیگی کارکن شہباز گل پر حملہ آور ہوئے اور پھر شہباز گل نے پریس کانفرنس میں مریم نواز کو کھری کھری سنائیں۔ تیسرا منظر یہ ہے کہ چیئرمین سینٹ کے الیکشن پر اپوزیشن کا ردعمل تقسیم ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرانے کے لیے جو زور لگایا اس سے پارٹی اور پارٹی قیادت کے بارے میں نئے ووٹرز میں منفی تاثر پھیلا۔ بلاول بھٹو کو جدید جمہوری اخلاقیات اور تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ایک امید بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ایک نامناسب جوڑ توڑ کی سرپرستی اور پھر اس کا دفاع کرنے پر بلاول کا نہیں بلکہ آصف زرداری کا اثر نمایاں ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بہرحال چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں اپنی شکایت کے باوجود موجودہ جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومتی وزرا شبلی فراز اور فواد چودھری نے چار روز قبل ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کو اصلاحات لانے کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ ایسی پیشکش پریس کانفرنس کی بجائے سلیقے سے پارٹی رابطے بروئے کار لا کر پہنچائی جاتی ہے‘ اس لیے حکومتی سنجیدگی کا اس وقت معلوم ہوگا جب ایسے رابطوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ سردست تاثر یہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے سوا پیپلزپارٹی ملک میں اصلاحات کے لیے پی ٹی آئی سے بات چیت پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کن شرائط پر اس پیشکش کو قبول کرتی ہے یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ممکن نہیں‘ بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی کو نون لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے کچھ ایریاز میں بیک وقت خود کو مستحکم کرنے کا موقع ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے‘ اب اس موقع کو پہچانا نہ گیا تو سمجھیں اگلے کئی عشرے یہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ پیپلزپارٹی نے اپنا ردعمل پرامن‘ سیاسی اور نظام کے دائرے میں رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ دراصل یہی وہ راستہ ہے جو اس کو اقتدار کی امید دلا رہا ہے۔ اس حکمت عملی سے نون لیگ کی پرتشدد اور غیر جمہوری سوچ کا کانٹا اور بھی سنگین دکھائی دیتا ہے۔ برسوں بعد سہی پاکستان کھپے اور پاکستان نہ کھپے کی بات کیسے نئے پہلو سے سامنے آئی۔ مسلم لیگ نے حکومت‘ اداروں اور بیرونی رابطوں کے لیے الگ الگ گروپ بنائے ہیں۔ نئی حکمت عملی یہ ہے کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ اداروں کے حوالے سے ایسے بیانات جاری کریں جو اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتے ہوں‘ ان بیانات کا دہرا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کریں یا حکومت کوئی قدم اٹھائے تو اسے سیاسی انتقام اور سیاسی آزادی کے خلاف مہم کا حصہ بنایا جائے گا۔کارروائی نہ کریں تو اپنی جمہوری جدوجہد کا بینر لگایا جائے گا۔ مسلم لیگ نون سیاسی لڑائی کو نوازشریف خاندان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی شکل دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں مریم اور حمزہ شہباز کے درمیان کچھ تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ بعدازاں حمزہ نے زیر حراست والد سے دو گھنٹے ملاقات کی اور پارٹی کی مجموعی سیاست کے ساتھ ساتھ مریم نواز سے اختلاف رائے پر بھی شہبازشریف کی رہنمائی چاہی۔ مریم نواز کے تنظیم سازی کے لیے مشہور ایک ساتھی نے بلاول بھٹو کو طنزاً اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کے بیان پر جو کچھ کہا اسے مریم کی مایوسی سے تعبیر کیا جارہا ہے‘ تاہم اسے کوئی سنجیدہ اختلاف نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ مریم اس وقت کسی بھی تنکے کا سہارا لینے کو تیار ہیں جو انہیں اور ان کے والد کو اقتدار واپس دلا سکے۔ پیپلزپارٹی کی جمہوری شناخت کو مسلم لیگ نون استعمال کر رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کو دوسرا کندھا مولانا فضل الرحمن نے فراہم کر رکھا ہے۔ ہر جماعت دوسری کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کی ضرورت پنجاب میں داخل ہونا ہے۔ یوسف گیلانی کی حمایت اور اگلے عام انتخابات میں کچھ نشستوں پر پی پی امیدوار کے مقابل نون لیگ کے امیدوار کھڑا نہ کرنے کا وعدہ اس عہد و پیمان کی خبر دیتا ہے۔ لندن میں مسلم لیگی قیادت پوری طرح سرگرم ہو چکی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پچھلے کچھ ماہ کے دوران پاکستان سے لندن جانے والے بہت سے سرکاری افسران کی مسلم لیگ نون کی قیادت سے ملاقات کرائی گئی ہے۔ کچھ ملاقاتیں نوازشریف اور باقی اسحاق ڈار‘ نوازشریف کے بیٹوں اور علی ڈار کے ساتھ ہوئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ ملاقاتیں کرنے والوں میں وفاقی اور صوبائی ایڈیشنل سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری عہدے کے افسران اور کچھ پولیس سروس کے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ ملاقاتیں کیوں کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے کیا منصوبہ روبہ عمل ہے یہ ابھی اخفا میں ہے۔ ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ چند روز قبل حسین حقانی چند دیگر افراد کے ساتھ نوازشریف سے ملے ہیں۔ حسین حقانی نوازشریف کے معاون خصوصی رہ چکے ہیں۔ نوازشریف کو چھوڑ کر جب وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملے تو اسلام آباد میں ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ چوکس اور انتہائی شاطر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر بنے اور پھر میمو گیٹ کے باعث وطن واپس نہ آئے۔ حسین حقانی جمہوریت‘ پاکستان میں فوج کے جمہوریت مخالف منصوبوں‘ انسانی حقوق اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ معلومات کا چورن بیچتے ہیں۔ انہیں بی جے پی حکومت کے قریب سمجھے جانے والے حلقے بھارت میں مدعو کرتے ہیں۔ حسین حقانی امریکی اسٹیبلشمنٹ میں جان پہچان بنا چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر جوبائیڈن کے درمیان براہ راست رابطے ابھی مضبوط نہیں‘ اس کی کوئی سٹریٹجک وجہ ہوگی لیکن حسین حقانی اپنی فیس کے عوض امریکہ میں نوازشریف کے لیے لابنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،آخری میدان کہاں لگے گا دیکھتے ہیں۔