دانیال آٹھ سال کا ہے۔ کارٹونز کی دنیا اس کے ننھے تخیل پر سوار رہتی ہے۔ وہ اکثر کارٹونز کے کرداروں اور واقعات کو حقیقی دنیا سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ادھر اس عمر کے بچے کارٹون کی دنیا میں ہونے والی چیزوں کو اصل زندگی میں ہی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب سے اس نے (Ninja go)نجا گو سیریز میں خزانے کی تلاش والی قسط دیکھی ہے اس پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ زمین کی کھدائی کر کے خزانہ تلاش کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایپی سوڈ اس نے اردو زبان میں دیکھی اس لیے خزانہ، تجوری، سونے کے سکے ہیرے جواہرات جیسے الفاظ اس کے زبان و بیان کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب صاحبزادے کبھی لان میں کیاری کے پاس بیٹھے زمین کھودنے میں مصروف ہوتے ہیں اور مقصد یہی کہ خزانہ ہاتھ آئے۔ ایک دن زچ ہو کر بولا ماما! مجھے خزانہ کیوں نہیں ملتا۔ اسے سمجھایا کہ بیٹا ایسا صرف کارٹونز میں ہوتا اصل زندگی میں ایسے خزانہ ہاتھ نہیں آتا نہ ہی سونے کے سکوں اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی تجوریاں ہمارے ہاتھ آتی ہیں۔ صاحبزادے لیکن خزانے کی تلاش پر کمربستہ رہے اور اس مثل کے تحت اکثر نظر بچا کر کیاریوں کی زمین کھودنے میں مشغول رہتے۔ ایک روز اس کے بابا نے اس کے ننھے تخیل کو حقیقت میں بدلنے کے لیے چھوٹے چھوٹے پتھروں کو سنہری پینٹ کر کے زمین میں دبا دیا۔ جہاں دانیال اکثر کھدائی کرتا تھا۔ اب صاحب جب خزانے کی تلاش کے دوران زمین سے سچ مچ کے سنہری پتھر دانیال کے ہاتھ آئے تو اس عظیم دریافت پر ہمارے صاحبزادے کی خوشی اور جوش و جذبہ دیکھنے والا تھا لیکن بھئی ڈیجیٹل دور کے بچے ہیں۔ جلد ہی اسے شک بھی ہو گیا اور بولا…یہ کہیں بابا نے تو نہیں چھپائے تھے میرے لیے۔! اب چونکہ آئیڈیا ہاتھ آ چکا تھا تو اگلے روز اپنا منی باکس جس میں سکے جمع کیے ہوئے تھے اسے زمین میں دبا کر ہمیں حیران کرنے کی کوشش کی۔ ہاتھ میں باغبانی والی رمبی پکڑی ہوئی اور گھر بھر میں صاحبزادے چیخ رہے ہیں کہ ماما باہر آئیں سونے کی تجوری آ گئی ہے۔ مجھے خزانہ مل گیا ہے۔ دیکھا تو اپنا منی باکس مٹی نکال کر ہمیں سرپرائز دے رہا ہے۔ اس کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہوا تو میں نے پیار سے سمجھایا بیٹا تجوریاں اور خزانے کی باتیں اصل زندگی میں نہیں ہوتیں کارٹونز میں ہوتی ہیں۔ اصل زندگی میں خزانہ صرف محنت اور کوشش سے ہاتھ آتا ہے۔ جیسے آپ پڑھائی میں محنت کریں تو اچھے گریڈ ہمارا خزانہ ہیں۔ ہمارا ہر اچھا کام، ہمارے لیے خزانہ ہے۔ یہ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دنوں کے بعد ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے لیاقت قائم خانی کی خبر آتی ہے۔ نیوز اینکر چیخ چیخ کر بتا رہا ہے۔سابق ڈی جی پارکس لیاقت قائم خانی کے گھر سے خزانہ برآمد۔ ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی تجوریاں مل گئیں۔ کروڑوں مالیت کے سونے کے زیورات سے بھر ہوئی تجوریاں مل گئیں۔ سنسنی خیز تفصیلات کچھ دیر کے بعد! کھلونوں سے کھیلتا ہوا دانیال خزانے، تجوریوں اور ہیرے جواہرات کے ذکر پر چونک گیا اور بڑی دلچسپی سے خبریں سننے لگا۔ پھر سوالیہ انداز میں بولا ماما آپ غلط کہتی تھیں کہ اصلی زندگی میں تجوریاں اور خزانہ نہیں ملتا۔ آپ نے دیکھ لیا ہے خزانے کی تلاش جس کی خبر ٹی وی پر بھی آ رہی ہے اور میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ خبروں کی فوٹیج میں خزانے کے مالک لیاقت قائم خانی کی کوئی پرانی تصویر دکھائی جس میںموصوف مسکرا رہے تھے۔ دانیال فوراً بولا، ماما اس کی سمائل سے لگ رہا ہے یہ ایک evilکریکٹر ہے۔ پرجوش لہجے میں پھر اس نے اعلان کیا یہ اس کہانی کا ولن ہے اس کی آنکھیں بالکل ولن جیسی ہیں اور پھر اپنے معصوم سے چہر ے پر وہی ولن والے تاثرات بنانے کی کوشش کی۔ پھر ایک خصوصی جوک کر کے اپنے والد صاحب کو بھی اطلاع دی کہ سونے کی تجوریاں اور خزانہ بالآخر مل گیا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ بیٹا کہتے تو آپ ٹھیک ہو۔ ہماری کہانی کے ولن یہی کرپٹ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کو اتنا اجاڑا ہے۔ اتنا ہڑپ کیا ہے کہ ان ہوس زدوں کی بھوک پر حیرت ہوتی ہے۔ یہ تو لیاقت قائم خانی کی منظر عام پر آنے والی دولت ہے۔ نجانے ابھی اور کتنا کچھ ہے جو پس منظر میں ہے اور اب موصوف نیب کی خدمت خاطر کے بعد اسے اگلیں گے۔ عالیشان گھر جس کے دروازے ریموٹ کنٹرول سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔ جس میں چھ چھ فٹ اونچائی اور دو دو فٹ چوڑائی کی دو جناتی سائز کی ایسی فول پروف تجوریاں بھی تھیں جن کو قائم خانی نے خود نیب اہلکاروں کی موجودگی میں کھولا۔ اربوں کھربوں کے اثاثے۔ چھپائے ہوئے ان اثاثوں میں ایک عدد دوسری بیوی بھی نکلی ہیں، جو کبھی ان کی گھریلو ملازمہ ہوتی تھیں۔ اس کا گھر بھی ایکڑوں پھیلا، عالیشان قیمتی گاڑیوں کی قطاریں۔ آبائی گھر بھی ملکی خزانہ لوٹ کر بنایا گیا۔ باپ کی قبر قاسم باغ کی طرز پر ایک عالیشان باغیچے میں بنائی ہے۔ مجھے اس باپ پر رحم آیا جس کے بیٹے نے اس کی قبر پر قوم کا لوٹا ہوا پیسہ لگایا۔ نیب نے جو کچھ سندھ کے سابق سرکاری افسر کے پاس سے اثاثوں، جائیدادوں، سونے کے زیورات ، ہیرے جواہرات، گاڑیوں، بنگلوں، پلاٹوں، فلیٹوں کی شکل میں نکلا ہے۔ اس کو دیکھ کر پھر سندھ کی بدحالی، ایڈز زدہ لاڑکانہ، کتے کی ویکسین کے بغیر تڑپتی ہوئی مخلوق کی حالت زار پر حیرت نہیں ہوتی۔ لیاقت قائم خانی، تو ایک شخص ہے اور اربوں روپے کی ہوش اڑا دینے والی کرپشن سندھ کے ایک سرکاری افسر کی ہے۔ یہاں تو قائم خانیوں کے ڈیرے ہیں۔ ڈی جی پارکس کی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ سرکاری انتظامیہ کا ایک پرزہ اور اگر ایک سرکاری ملازم کی کرپشن اس نوعیت کی ہے تو سوچیں سندھ پر حکمرانی کرنے والوں نے قومی خزانے پر کیا ڈاکہ ڈالا ہو گا۔ کوئی بربادی سی بربادی ہے لیکن ٹھہریے ماتم کی گھڑی یہ نہیں۔ ہمارے سماج میں اخلاقی زوال کا کلائمیکس یہ ہے کہ اس شخص کو جسے لیاقت قائم خانی کہتے اسے ایم کیو ایم کے دورِ حکومت میں عشرت العباد نے ہلال امتیاز سے نوازا اور اس کی عظیم قومی خدمات کے اعتراف میں پیپلزپارٹی کے دور میں صدر زرداری نے اپنے ہاتھوں سے اس قومی ڈاکو کو ستارہ امتیاز کا نشان عطا کیا۔! ماتم کی گھڑی اخلاقی زوال کا کلائمیکس! ع خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد۔!