دولت کی ہولناک ہوس کا انجام سب کے لئے بھیانک تھا۔ کوئی قتل ہوا‘ کسی نے خودکشی کر لی‘ کوئی موت مانگ رہا ہے۔کوئی بدنامی سے منہ چھپا رہا ہے۔ تو کوئی اپنے کروڑوں ڈوب جانے کے غم میں ادھ موا ہو چکا ہے۔ اس کہانی کا ایک اور کردار جو قتل کے واقعے کا عینی شاہد تھا‘ موت اور حیات کی کش مکش میں رہنے کے بعد چل بسا۔ خودکشی کرنے والا عاطف زمان کا ڈرائیور تھا اور اس کے کئی کاموں کا راز دار بھی تھا۔ حرص و ہوس کی اس ہوشربا داستان کا جو پہلا کردار ہمارے سامنے آیا اس کا نام مرید عباس تھا جو ایک نجی ٹی وی کا اینکر تھا۔ معمول کی خبروں میں اس کے قتل کی خبر آئی تو دل کو رنج ہوا۔ ایک جواں سال مستقبل کی طرف دیکھتا ہوا انسان۔ ناگہانی موت سے دوچار ہوا۔ ٹی وی اینکر تھا مگر میری پہچان میں نہیں آیا کہ اب ایک تو ٹی وی چینلوں کی بھر مار ہے اور دوسرا اینکروں کا ایک ہجوم ہے جو انداز و اطوار میں ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں اوپر سے بولنے کا ایک ہی طریقہ چیخ چیخ کر خبریں پڑھنا خال ہی کسی کی انفرادی شخصیت ہو گی۔ مجھے تو سب ایک دوسرے کی فوٹو کاپیاں دکھائی دیتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ بیچ میں آ گیا۔ اصل بات یہی کہ مرید عباس کے بارے میں کوئی اور معلومات میسر نہیں تھیں پھر فیس بک کی کچھ پوسٹوں سے معلوم ہوا کہ وہ میانوالی کے علاقے پپلاں کے ایک انتہائی غریب گھر کا لڑکا تھا۔ غربت کی انتہا تھی کہ دس بارہ برس کی عمر میں وہ کراچی تاجر گھرانے میں بطور ملازم کام کرنے کی غرض سے اپنے گائوں سے بڑے شہر کراچی آیا تھا۔ لیکن پھر اس کی ذہانت اور پڑھائی کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس گھر کے ہمدرد دل مالک نے اس بچے کو پڑھایا۔ یقینا بہت محنتی اور ذہین ہو گا کہ نامساعد حالات میں اپنی تعلیم مکمل کی اور غربت کی بوسیدہ گلیوں سے ہوتا ہوا بالآخر میڈیا کی چکا چوند اور گلیمر سے بھری دنیا میں داخل ہو گیا۔ ناگہانی قتل کی وجہ آغاز میں تو کسی کو سمجھ نہیں آئی مگر جب کہانی کھلی تو معلوم ہوا کہ اس کی اصل قاتل دولت اور مزید دولت اکٹھی کرنے کی بے جا ہوس تھی اور وہ صرف ایک ہی کردار نہیں تھا بلکہ اس ہوشربا داستان میں اور کئی اس جیسے لوگ ملوث تھے۔ جن کے دلوں میں حرص و ہوس کے وہ بت خانے آباد تھے کہ جن کی موجودگی میں انسان ہر ناجائز راستے کو خواہش کے حصول میں جائز سمجھتا ہے اور آگ سے بھرا ہوا یہ راستہ بالآخر ہوس کے مارے کو زندگی کی ایسی بند گلی میں لے جاتا ہے۔ جہاں خسارے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔منیر نیازی نے ایسی ہی صورت حال کے لئے کہا ہو گا : مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیرؔ عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا۔! اور سے اور کی خواہش۔ شاید انسانی جبلت ہے اور انسان کی ساری تربیت بھی اس نہج پر ہوتی ہے کہ خواہش کے سرپٹ گھوڑے کو لگام دے کر رکھے۔ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کا حصول اگر جائز راستوں سے محنت کے ساتھ ہو تو پھر بھی قابل قبول ہے۔ لیکن اگر یہ خواہش جائز اور ناجائز کی تمیز بھلا دے تو پھر یہ راستہ سراسر خسارے کا ہے۔ عاطف زمان جو اس کہانی کا ڈبل شاہ ہے۔ اس نے مرید عباس کو قتل کیا۔ اس کے پاس مرید عباس نے کروڑوں کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ سوال تو یہاں اتنا ہے کہ ایک غریب ترین خاندانی پس منظر کا لڑکا جو ایک ٹی وی اینکر ہے اس کے پاس کروڑوں کہاں سے آ گئے۔؟ خیر اسی جیسے 25اور اینکرز تھے جنہوں نے مبینہ طور پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ بدنامی کے ڈر سے بہت سے متاثرین منظر عام پر نہیں آئے۔ ایک خوشحال اور آسودہ زندگی گزارنے کے لئے انسان کو کتنے پیسے چاہئیں۔ یقینا جنہوں نے کروڑوں کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی ان کے پاس اتنے وسائل موجود تھے کہ وہ ان دستیاب وسائل سے ایک خوشحال اور آسودہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن ہائے اور سے اور کی خواہش نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ غفلت میں ڈالے رکھا تم کو ایک دوسرے سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔(سورہ التکاثر پہلی آیت کا ترجمہ) قسم ہے زمانے کی یقینا انسان خسارے میں ہے(سورہ:العصر پہلی آیت کا ترجمہ) تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو طعنے دینے اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے کا خوگر ہے اور جو جمع کرتا رہا مال اور گن گن کر رکھتا رہا اسے۔(سورۃ الھمزہ کی پہلی دو آیتوں کا ترجمہ) کتاب مبین کی یہ تین سورتیں جس میں انسان کی مال و دولت کی ہوس پر تباہی کا اعلان کیا گیا عین اسی ترتیب سے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ حکمت کی اس روشنی میں مرید عباس ‘ عاطف زمان اور ان سے جڑے دیگر کرداروں کی کہانی کو دیکھیں تو کتاب مبین کا پیج ہمارے غفلت زدہ دلوں پر آشکار ہو جاتا ہے ؎ وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا مرید عباس جیسے لوگ تو شاید غربت اور پسماندگی میں پلے بڑھے ہوتے ہیں تو ان کی نفسیات سے یہ کمی جاتی ہی نہیں اس لئے اور سے اور کی ہوس انہیں بے چین رکھتی ہے۔یہ زرداری اور شریفین ان گنت بنک اکائونٹس‘ بے نامی جائیدادوں کے ڈھیر۔ اربوں کھربوں کے بنک بیلنس۔ کارخانے فیکٹریاں شوگر ملیں۔ محلات اور لگژری فلیٹس۔ دولت کے انبار کئی کئی بار کی حکمرانی۔ لیکن مزید دولت کی ہوس میں ان کی زندگیاں عبرت کا نشان بن چکی ہیں۔جیلیں‘ عدالتیں‘ پیشیاں‘ گرفتاری کے خطرات کہاں ہے وہ آسودہ اور خوشحال زندگی جو دولت کے مائونٹ ایورسٹ کھڑے کرنے کے بعد بھی انہیں میسر نہیں آئی۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ جہاں مذہبی اقدار‘ اخلاقیات انسان کی بنیادی تعلیم تربیت میں شامل نہ ہو وہاں پورا معاشرہ ہی اور سے اور کی ہوس میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ہم سب میں بھی چھوٹے چھوٹے مرید عباس موجود ہیںمیٹریل ازم کی بنیاد پر قائم ہمارا سماج بھی نوجوان کو Sky is the limitکا سبق پڑھاتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ خواہش اور خواب کے حصول میں اقدار اوراخلاقیات کی Limitsبہرحال قبول کرنی چاہیں ورنہ سارا سفر ہی خسارے کا ہو گا۔ کتاب مبین میں یہی لکھا ہے۔