نو منتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس انفرادیت کا حامل رہا۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے حلف نہ اٹھانے اور عوامی تحریک برپا کرنے کی سعی رائیگاں گئی۔ اپوزیشن نے ارکانِ اسمبلی کو کالی پٹیاں باندھ کر شرکت کی ترغیب دی مگر جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ(ن) کے کسی رکن نے بھی مان کر نہ دیا۔ جن احباب کا خیال تھا کہ پہلے اجلاس میں مشتعل اپوزیشن تحریک انصاف کا تیا پانچہ کر دے گی اور عمران خان کے اڑیں گے پرزے، انہیں مایوسی ہوئی، ہونی تھی کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں سے کوئی بھی جمہوری نظام کو دائو پر لگا کر اپنا مستقبل تاریک کرنے کے حق میں نہیں، ویسے بھی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست کا انجام میاں نواز شریف کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ وہ بھی اڈیالہ جیل کی رونق بنے۔ 25جولائی سے قبل ایک دوست نے مجھ سے مسلم لیگ(ن) کے اس منصوبے کا ذکر کیا کہ مطلوب نتائج نہ ملنے پر ایم ایم اے کی مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر 1977ء طرز کی احتجاجی تحریک برپا کی جائے گی۔ میں نے اپنے کالم میں یہ بات لکھی مگر اس دوست پر واضح کیا کہ ؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں 2018ء میں مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے پاس وہ نظریاتی قیادت ہے نہ قوت عمل سے مالامال دیانتدار کارکن اور نہ عوامی اعتماد کا سرمایہ جس کے بل بوتے پر 1977ء میں پاکستان قومی اتحادنے تاریخی تحریک چلائی۔قومی اتحاد کے کسی رہنما مولانا شاہ احمد نورانی، ایئرمارشل اصغر خان، میاں طفیل محمد، مولانا مفتی محمود، پیر صاحب پگاڑا اور خان محمد اشرف خان پر کرپشن کا الزام تھا نہ ان میں سے کسی کو نیب و ایف آئی اے کا ڈر اور نہ کوئی کبھی ایجنسیوں سے ساز باز کر کے اقتدار میں آیا تھا۔ نیب، ایف آئی اے اور پولیس کو مطلوب قائدین، نومنتخب ارکان اسمبلی اور کارکنوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سوچ سکیں۔ ویسے بھی موجودہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی سیاست کا مرکز و محور مال مسروقہ کی حفاظت ہے۔ جمہوریت کا فروغ و احیا نہیں۔ عمران خان جیسے نڈر، کمپلیکس فری اور دیانتدار سیاستدان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن کو ماضی کے کند ہتھکنڈوں کے بجائے نئے اور کارگر حربے اختیار کرنے پڑیں گے۔ جو شخص معمول کا سفید شلوار قمیص پہن کر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لیے چل پڑتا ہے اور کارڈ بنوانے کی غرض سے اسمبلی اہلکار کی واسکٹ پہن کر تصویر بنوانے میں عار محسوس نہیں کرتا، اس کا مقابلہ آسان نہیں۔ جدہ جانے سے قبل میاں نواز شریف ہمیشہ شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس نظر آتے تھے۔ یہ لباس گورے چٹے کشمیری پر جچتا بہت تھا مگر 2013ء کے انتخاب میں کامیابی کے بعد انہیں پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس دیکھاگیا۔ آج میاں شہباز شریف بھی کامریڈوں والا لباس اور کائوبوائے والی ٹوپی ترک کر کے پینٹ کوٹ ٹائی میں ملبوس تھے جس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں لیکن عام آدمی کے نقطۂ نظر سے یہ احساس کمتری ہے جو انسان کو خاص مواقع پر اپنی عادت اور معمول کے برخلاف کھانے، پینے، اوڑھنے، بچھونے پر مجبور کرتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان کے جو وظیفہ خوار عمران خان اور تحریک انصاف کا راستہ روکنے میں ناکام رہے وہ اب نو منتخب حکومت کو عددی اعتبار سے طاقتور اور ناکامی کے غصے میں مبتلا خونخوار اپوزیشن سے ڈرا کر اپنا جی بہلا رہے ہیں۔ کسی کو جلد یا بدیر سول ملٹری تعلقات میں خرابی کا اندیشہ ہے اور کوئی عمران خان کو چودھری برادران اور ایم کیو ایم سے اتحاد کا طعنہ دیکر عوام کی نظروں سے گرانے کے در پے ہے۔ ذاتی ناکامی کو قومی ناکامی میں بدلنے کے خواہش مند سیاسی و صحافتی بزرجمہر سامنے کی یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ عمران خان کے دور حکمرانی میں سول ملٹری تعلقات مثالی ہوں گے کہ دونوں کو اپنی محدودات کا علم ہے اور پاکستان کو درپیش قومی و بین الاقوامی چیلنجز کا ادراک۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کی نا اہلی، خوئے بدعنوانی اور شاہانہ مزاج کے علاوہ سول ملٹری تعلقات کی خرابی نے پاکستان میں گورننس کا بیڑا غرق کیا، ادارے کمزور سے کمزور تر ہوئے اور مافیاز نے پورے معاشرے کو جکڑ لیا۔ قبضہ مافیا، بھتہ مافیاتاوان، منافع خور مافیا، ذخیرہ اندوز مافیا، شوگر مافیا اور سیاسی و صحافتی مافیا۔ مافیاز کی عملداری نے ریاست کا رعب و دبدبہ اور اداروں کا احترام ختم کر دیا اور قانون طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گیا۔ عمران خان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اداروں کی تشکیل و تکریم کے اپنے دعوئوں پر عمل کریں اور طاقت کے مراکز کی خوشدلانہ تائید و حمایت کا فائدہ اٹھا کر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ مادرپدر آزادی کا موجودہ رجحان قوم اور ریاست دونوں کے لیے خطرناک ہے اور اس کے آگے بند باندھنا حکومت کی اولین ذمہ داری۔شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی عمران خان کے جذبہ و جنوں، خدمت خلق کے علاوہ بہترین انتظامی صلاحیتوں اور میرٹ پر فیصلے کرنے کی عادت کا منہ بولتا ثبوت ہے اسے محض سماجی خدمت کے دائرے میں محدود کرنا بدذوقی ہے۔ اسمبلی ریکارڈ کے لیے تصویر کھنچوانے کی غرض سے عمران خان نے ایک معمولی اہلکار کی واسکٹ زیب تن کر کے ان لوگوں کو مایوس کیا جو وزیر اعظم کو بادشاہ دیکھنے کی لت میں مبتلا اور بادشاہوں کے چونچلوں کے مداح ہیں۔ اوّل تو انہیں یہ بات ہی ہضم نہیں ہو رہی ہو گی کہ عمران خان عوامی لباس شلوار کرتے میں اسمبلی آئے۔ اگر وہ حبس کے اس موسم میں تھری پیس سوٹ پہننے کے روادار نہ تھے تو کم از کم شلوار کرتے پر مہنگی واسکٹ کا اہتمام ضرور کرتے۔ اگر جلدی میں انہیں یاد نہ رہا، کسی مصاحب نے بھی یاد نہ دلایا تو مانگے تانگے کی معمولی واسکٹ میں تصویر کھنچوانے سے بہتر تھا گاڑی بھیج کر بنی گالہ سے منگوا لی جاتی۔ قوم ایسے وزراء اعظم کو بھگت چکی ہے جو لاہور کے ہریسے،حلیم، نہاری اور سری پائے منگوانے کے لیے پی کے ون کو گدھا گاڑی کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ مجید نظامی مرحوم سنایا کرتے تھے کہ انہیں وزیر اعظم نے اسلام آباد میں ناشتے پر مدعو کیا اور ملازمین نے میز انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دی۔ کھانے کے بعد وزیراعظم کو میٹھے کی طلب ہوئی تو خاص قسم کی رس ملائی پیش کی گئی جو شاید کراچی سے آئی تھی۔ وزیراعظم نے رس ملائی کو چمچے سے دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہا تو رس ملائی اچھل کر میز سے نیچے جا گری۔ پتہ چلا کہ ملازمین نے رس ملائی کا ڈونگہ فریزر میں رکھ چھوڑا اور کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ ظہرانے کے بجائے ناشتے پر طلب کر لی جائے گی۔ میزبان نے مجید نظامی صاحب سے کہا کہ وہ دوپہر تک رکیں تا کہ کراچی سے تازہ رس ملائی منگوا کر انہیں پیش کی جا سکے۔ نظامی صاحب نے معذرت کی کہ وہ میٹھے کے شوقین نہیں، لاہور جانے کے خواہشمند ہیں ورنہ وزیر اعظم طیارہ بھیج کر کراچی سے خوش ذائقہ رس ملائی منگوانے کو بے تاب تھے۔ عارف نظامی صاحب اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ تبدیلی کا عمل شروع ہے اور آئین نو سے ڈرنے،طرز کہن پہ اڑنے والا ہر شخص پریشان۔ رس ملائی کھانے کے دیرینہ شوقین تبدیلی سے بدمزہ اور نئے دور سے خوفزدہ ہیں کہ حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں اب شایدکچھ ’’کھانے‘‘ کو ملے نہ ’’پینے‘‘ کو۔ خشک حکمرانی کا انہیں کیا فائدہ؟