اشرف-علی

روایتی خطوط نویسی کی تازہ صورتحال سے متعلق مزید معلومات کے لیے میں صدر ڈاکخانے میں اندر چلاگیا، جہاں محکمہ میںسینئر پوسٹ ماسٹر کے طورپر کام کرنے والے اشرف علی سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ اب خط لکھے اور بھیجے نہیں جاتے۔ان کا کہنا تھا:

’’اب پہلے کے مقابلے میں خط لکھنے اور بھیجنے کا سلسلہ بہت کم ہوگیا ہے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ روایت ختم ہوچکی ہے۔ پہلے کی بہ نسبت اب چالیس فیصد کم خط لکھے اور بھجوائے جا رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں لٹریسی ریٹ بڑھ گیا ہے اور لوگ اپنے خط خود لکھ سکتے ہیں۔اس لیے منشیوں کا کام کم ہوچکا ہے۔ہمارے پاس اب وی پی پی اور وی پی ایل کا کام بہت بڑھ گیا ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر مراد سعید نے نئی اسکیمیں شروع کرائی ہیں، جن سے محکمے کی اہمیت اور بڑھ چکی ہے۔اس کے علاوہ نوجوان لوگ اب آن لائن کاروبار کے لیے ڈاکخانے پر انحصار کرنے لگے ہیں‘‘۔

’’وہ کیسے؟‘‘۔ 

’’دیکھیں،اب ہمارے ملک میں آن لائن کاروبار بہت بڑھ چکا ہے۔نوجوانوں نے نیٹ کے ذریعے اشیاء کی فروخت کرنے کاجوسلسلہ شروع کیا ہے،اس کی بکنگ تو وہ گھر بیٹھے کر لیتے ہیں مگر ان چیزوں کو بھجوانے کے لیے وہ پوسٹ آفسز کی سروس سے استفادہ کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ کسی بھی کوریئر سروس سے سستا پڑتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ ہمارا کام کم ہوگیا ہوگا مگر میں آپ کو بتائوں کہ اب بھی ہمارے ہاں دو شفٹوں میں کام ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اور ادارہ جاتی ڈاک کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔اس کے علاوہ کئی دیگر سہولیات اور پروڈکٹس بھی متعارف کرائی گئی ہیں‘‘۔