رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نجوم ہدایت تھے اور ان نجوم ہدایت میں بعض اپنے خصائل ومناقب کے اعتبار سے بہت ممتاز تھے ،اُن کے فضائل ومناقب ، محامد ومحاسن اور بیان کرنا ناممکن ہے ،اُن میں سے ایک بہت بڑا نام ’حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ‘ کا ہے ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام جمالیاتی ثروتوں کے حُسن صوت اور نہایت فصیحانہ اندازِ خطابت عطا فرمایا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا خطیب وترجمان مقرر کیا ۔ آپ کا اسم گرامی ’ثابت‘ اورکنیت ’ابو محمد‘جب کہ آپ کا لقب ’خطیب ِ رسول اللہ‘ ہے ۔آپ کاتعلق قبیلۂ خزرج سے تھا ۔آپ نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کیا ،آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں اورغزوہ ٔ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے اوراپنی جنگی صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔ جب سرکار ِکُل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تواستقبال کے لیے تمام شہر نکل آیا تھا، اس موقع پرحضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ دیااور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض کیا کہ ہم آپ کی ہر اس چیز سے حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں،تونبی ِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اس کی جزا ’’جنت‘‘ ملے گی تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ ہم سب راضی ہیں۔ 9ھ میں بنو تمیم کا ایک وفد آیا اور نہایت نامناسب طریقے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہرآؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعداس وفدنے عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبے ،جاہ وحشمت اورمقام ومرتبے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو، ثابت رضی اللہ عنہ نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے ۔ اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو لے کر اس کے پاس گئے ،ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمہاری اتباع کرتا ہوں، امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کر سکتا،خدانے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہے گا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو’’وھذا ثابت یجیبک عنی ‘‘یہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ہیں یہ میری طرف سے تمہیں جواب دیں گے ۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایااور پھر اُٹھ کر تشریف لے گئے ۔بقیہ حصہ سیرت وطبقات کی تمام کتب میں موجود ہے ۔یہ فضیلت ہے آپ کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن کو اپنی طرف سے نائب مقرر فرمایا کہ یہ میری طرف سے جواب دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ نہایت قابل اعتبار اور دینی اعتبار سے پوری سمجھ رکھنے والے شخص تھے ،آپ کی گفتگو فصاحت وبلاغت کا پیکر ہوتی ،خطیب کے لیے بہت سی چیزیں ضروری ہوتی ہیں ۔آواز بڑی بارعب اور خوبصورت ہو ،اُس میں بلاغت ہو ،کلام کرنے والا فصیح اللسان بھی ہو ۔بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ جیسی گفتگو کی ضرورت ہے وہ گفتگو کی جائے اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرے موقع کے مناسب بات کرے تو اُس کا نام ’’بلاغت ‘‘ہے اور اگر اُس کے الفاظ بھی خوبصورت ہوں تو اُس کا نام ’’فصاحت ‘‘ ہے تو فصیح بھی ہو بلیغ بھی ہو اور یہ سمجھداری کے بغیر نہیں ہوسکتا تاکہ وہ موقع کے مناسب جملے لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے اندازِ خطابت کو اشاعت ودفاع اسلام کے لیے پیش کیا ۔ جب وہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اونچا بولنے سے منع کیا گیا ہے تو حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو فکر دامن گیر ہوئی‘آپ اپنے گھر میں سر جھکا کر بیٹھ رہے ۔ایک روز حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا تو فرمایا کہ کوئی ہے جو مجھے ثابت بن قیس کی خبر لادے ‘ ایک شخص نے عرض کی ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اُن کی خبر لادوں گا ،پھر وہ شخص گیا تو انھیں ان کے گھر میں پایا اِس حالت میں وہ سرجھکائے ہوئے بیٹھے تھے ، اُس شخص نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے ، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بُرا حال ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کردی تھی لہٰذا میرے عمل ضائع ہوگئے ، اس باعث مجھے ضرور جہنم میں جانا پڑے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کاعلم ہوا تو آپ نے فرمایا۔’’خدا کی قسم ثابت جہنمی نہیں بلکہ میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔‘‘آپ امیر المؤمنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے ۔ ( ماخذومراجع: البدایہ والنہایہ، طبقات بن سعد ، عیون الاثر، الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، اسد الغابہ )