برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیاہے کہ وہاںنوجوان نسل روایتی خطوط نویسی کے فن کو بھول چکی ہے۔ اور اب قلم سے خط لکھنے والوں کی تعداد صرف ہزار میں سے ایک رہ گئی ہے۔

برطانیہ کے ادارہ نیشنل لٹریسی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر جوناتھن ڈگلس کہتے ہیں کہ نوجوانوں میں کلاس سے باہر خطوط نویسی کا رجحان معدوم ہوچکاہے۔ انھیں اب اس کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے۔اب تو نصاب میںاگر ایسا کوئی سبق ہوتا ہے کہ اپنے دوست کو خط لکھیے، جس میں اسے اپنی حالیہ پکنک کا احوال دیجیے تو کلاس میں موجود طلباء ہنسنے لگتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ ٹیچر ! آج کے دور میں اس لیسن کی آخر کیا ضرورت ہے؟ ہم فرینڈ کو می کی ایک جزوی وجہ میٹرک جیسے اہم سال کی پڑھائی کا دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔کال کر کے پکنک کا تمام احوال دے سکتے ہیں کہ ہم نے وہاں کیا دیکھا اور کتنا انجوائے کیا؟۔

ڈاکٹر ڈگلس مزید کہتے ہیں کہ ایسے ماحول میں یہ بات خوش آئند ہے کہ کم عمر بچے اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں مہم جوئی کے طور پر ہی سہی اب بھی خط لکھنے کے لیے کچھ وقت نکال رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ای میل کے مقابلے میں پین سے خط لکھنا، نامہ نگار اور وصول کنندہ دونوں کو ذاتی طور پر پر لطف احساسات سے پُر کرتا ہے۔اس سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ لڑکیوں میں خطوط نویسی کا امکان زیادہ پایاجاتا ہے۔ہر تین میں سے ایک لڑکی مہینے میں ایک بار اپنی کلاس میٹ یا کسی دوست کو ہاتھ سے خط لکھ کربھجواتی ہے۔

اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مہینے میں ایک بار تحریری خط کتابت کرنے والے بچے اپنی عمر سے زیادہ اچھے مصنف ہوتے ہیں۔اور یہ بھی کہ خطوط نویسی بچوں اور نوجوانوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں مدد کرتی ہے۔