ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ گفتگو کے دوران خطے کے امن کو بھارتی اشتعال انگیزی سے لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا’’ہم بھارت کو بتا چکے ہیں کہ اس نے جنگ شروع کی تو اس کو ختم ہم کریں گے‘‘۔ انہوں نے بھارتی فوج کی استعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو فوج 80لاکھ کشمیریوں کو شکست نہ دے سکی وہ 21کروڑ پاکستانیوں کو کیسے ہرا سکتی ہے۔ پاک فوج نے جنوبی ایشیا کو تباہی سے بچایا ہے‘ پاکستان بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے اور ہمیں اس پیش رفت کو برقرار رکھنا ہے‘‘۔ پاکستان اور بھارت ایک ہی وقت نو آبادیاتی طاقت برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوئے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ دونوں ملک اس طرح کے مثالی ہمسایوں کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھیں جیسا کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ پاکستانی قیادت نے پہلے دن سے اپنی توجہ پرامن تعلقات اور انسانی بہبود پر مرکوز رکھی مگر بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کا واقعہ خطے کے امن کے لئے تباہ کن ثابت ہوا۔ جوں جوں بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد میں تاخیر کی یہ تعلقات مزید کشیدہ ہوتے گئے۔1947ء سے 2020ء تک دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں واقعات ایسے ہوئے جب بھارت نے لائن آف کنٹرول یا بین الاقوامی سرحد پر بلا اشتعال گولہ باری کر کے نہتے شہریوں کی جان لی۔بھارت میں بی جے پی کا ابھار مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ یوں تو تحریک آزادی کے دوران لالہ لاجپت رائے نے مسلمانوں کو الگ ملک دینے کی اس وجہ سے حمایت کی کہ اس طرح انہیں ہندوستان کے باقی علاقوں سے نکالا جا سکے تاہم سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ان کے ہم خیال افراد نے آزادی کے بعد بھارت کی سیکولر شناخت کو ختم کر کے ہندو توا کا پرچار شروع کر دیا۔ بی جے پی اسی سوچ کی علمبردار اور سردار پٹیل کو اپنا رہنما مانتی ہے۔ یہ اس انسان دشمن سوچ کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں پہلے سماج میں مسلم دشمنی کا زہر ملایا گیا پھر مسلمانوں سے منسوب ہر یادگار کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ بابری مسجد شہید ہو چکی‘ کئی دیگر مساجد اور مزار بھی ختم کر دیے گئے۔ تاج محل پر بھی ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے۔ مسلمانوں کو گائو رکھشک راہ چلتے قتل کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر اقوام متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق تک نے اس صورت حال کی مذمت کی ہے لیکن یہ آگ بی جے پی کی سیاست کو گرماتی ہے، اس لئے اسے بھڑکائے رکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھارت میں عام انتخابات تھے۔ انتخابات کا منشور ہمیشہ اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرنے اور ان کی بہبود کے منصوبوں سے آراستہ ہوتا ہے۔ بی جے پی کے دور میں بھارت نے یقینا معاشی ترقی کی۔ لیکن انتہا پسندی اور نسل پرستی پیداواری عمل کی دشمن ہوتی ہے۔ بھارت کی جی ڈی پی 8.00سے 4.5تک گر چکی ہے۔ سوا ایک ارب آبادی کے ملک میں معاشی ابتری پھیلے تو اس کے اثرات بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ انتہا پسندی کی بنیاد پر تشدد عام کیا جا سکتا ہے پیداواری عمل بحال نہیں ہو سکتا۔ دوسری بار بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کے بعد نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر ختم کر دی۔ دوسری خرابی متنازع شہریت قانون کی منظوری ہے۔ ان دونوں فیصلوں نے بھارتی سکیورٹی فورسز پر غیر معمولی دبائو ڈالا ہے اور پورے بھارت میں انتشار کی کیفیت ہے۔ بھارتی سماج اور سیاسی رجحانات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین پیشگوئی کر رہے ہیں کہ حالات اس ڈگر پر رہے تو جلد بھارت کئی ٹکڑوں میں بٹ سکتا ہے۔مودی سرکار نے گزشتہ برس عام انتخابات کے موقع پر پاکستان کے علاقے میں لڑاکا طیارے بھیجے۔ ان طیاروں کو پاکستان نے مار گرایا۔ بی جے پی حکومت ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے ہوا بازوں کی بہادری کے قصے سناتی رہی اور جنونی ہندوئوں کو بہلاتی رہی۔ چند ہفتے قبل بھارت کے نئے آرمی چیف نے منصب سنبھالا ہے۔ نئے آرمی چیف نے پہلے دن سے پاکستان مخالف بیانات داغنے شروع کر دیے۔ ان کی دیکھا دیکھی داخلی انتشار پر قابو پانے میں ناکام نریندر مودی نے بھی ایسے بیانات جاری کرنا شروع کر دیے ہیں جن سے ان کے حامی عوام کی توجہ شہریت قانون اور مقبوضہ کشمیر کی حالت زار سے ہٹانے کی سعی ہو رہی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے خدشات بے جا نہیں کہ بھارت مسلسل خطے کے امن کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ صلاحیت کے لحاظ سے پاکستان بھارت کی ہر قسم کی شرانگیزی اور جارحیت کا مکمل جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان روائتی اور غیر روائتی دونوں طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ اگر گزشتہ دو سال کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان جنگ نہیں شروع ہوئی تو اس کا سہرا پاکستان کے سر ہے جو ایٹمی ریاست ہوتے ہوئے تحمل اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ پاکستان اس بات سے آگاہ ہے کہ جنگ کا شروع کرنا آسان ہے مگر یہ کب ختم ہو اور کیسے ختم ہو اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے مگر بھارت معاملات کو تصادم کی آنچ پر رکھنا چاہتا ہے۔ بین الاقوامی برادری اور وہ طاقتیں جن کے خطے میں مفادات ہیں انہیں پاکستان کی طرف سے بار بار کے انتباہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کے پیشگی خدشات پر توجہ نہ دی گئی تو خطے میں پونے دو ارب کی آبادی کسی بڑے سانحے کا شکار ہو سکتی ہے۔