اطالوی سیاسی مفکر اور دانشور میکاولی نے سیاست کا مرکز غلط اور صحیح کے بجائے حقائق اور اہداف کو قرار دیتے ہوئے فلسفیانہ خیالات کے بجائے عملی سیاست اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی پر زور دیا ہے۔ ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر گوئبلز کو اس بات پر یقین تھا کہ جھوٹ اعتماد اور تسلسل کے ساتھ بولا جائے تو سچ بن جاتا ہے۔ مغرب میکاولی اور گوئبلز سے بظاہر جتنی بھی نفرت کا ڈھونگ رچائے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی آج بھی میکاولی اور گوئبلز کے افکار کے پجاری ہیں۔ امریکی صد جوبائیڈن نے یہ بات ایک بار پھر دہرائی ہے کہ دنیا میں ایسا کچھ نہیں جو امریکی حاصل کرنا چاہیں اور حاصل نہ کر سکیں۔’’ایسا کچھ نہیں‘‘ کی وضاحت بوسٹن گلوبل اور نیو یارک ٹائمز سے و ابستہ صحافی کنزر نے اپنے ایک مضمون میں بڑی وضاحت اور شواہد کے ساتھ بیان کی ہے۔ کنزر کے مطابق امریکی سی آئی اے چاہتی ہے کہ عالمی میڈیا اور امریکی اتحادی دنیا کو واشنگٹن کی نظر سے دیکھیں۔ کنزر کے خیال میںبڑے بڑے امریکی صحافی جو امریکی ٹی وی چینلز پر عالمی امور پر ماہرانہ تجزیے پیش کرتے ہیں ان کی حیثیت محض سٹینو گرافر سے زیادہ نہیں وہ وہی کہتے ہیں جو سی آئی اے کہلوانا چاہتی ہے کنزر تو یہاں تک دعویٰ کرتا ہے کہ امریکی ہی نہیں مغربی میڈیا میں بھی سی آئی اے کے پے رول پر کثیر تعداد میں صحافی ہیں ۔ کنزر نے دعویٰ کیا ہے کہ 2014ء میں سی آئی اے نے جرمن صحافی اور ایڈیٹر اڈواللوکوٹی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے نام سے وہ مضامین شائع کرے جن کو وہ غلط اطلاعات کی وجہ سے مسترد کر چکا تھا یا پھر ان مضامین کو فرضی ناموں سے شائع کیا جائے۔ امریکی چینلز پر تجربے کرنے والوں کی اکثریت جن ممالک کے بارے میں تبصرے اور تجزیے کر رہی ہوتی ہے انہوں نے وہ ملک دیکھا بھی نہیں ہوتا۔ شام کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈا بیروت یا شمالی امریکہ کے ان صحافیوں کی طرف سے آتا ہے جو کبھی شام گئے ہی نہیں۔ عراق اور افغانستان کو تباہ کرنے کے لئے سی آئی اے نے گمراہ کن پراپیگنڈا کا سہارا لیا ۔ کنزر یہ دعویٰ بھی کرتا ہے امریکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے کیونکہ افغانستان، عراق، یمن اورشام میں اپنے اہداف کے لئے لاکھوں انسانوں کا خون بہا چکا ہے۔ یہ صرف ایک امریکی صحافی کی سوچ نہیں بلکہ عالمی سطح پر سیاسی رہنما بھی امریکی جابرانہ پالیسیوں کو محسوس کر رہے ہیں اور نپے تلے الفاظ میں امریکی حصار سے نکلنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ سویڈن کے سابق وزیر اعظم کارل بلڈٹ نے گزشتہ ماہ شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یہ تسلیم کیا ہے کہ عالمی طاقت کے طور پر چین کے ابھرنے سے امریکہ میں گہری تشویش اور خوف پایا جاتا ہے۔ اسی خوف نے امریکہ کو اپنی اجتماعی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کیا ہے۔ کارل بلڈٹ کے مطابق بائیڈن کا صدر منتخب ہونے کے بعد یورپ کا دورہ یورپی یونین کے رہنمائوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش تھا کہ امریکہ عالمی سیاست میں واپس آ چکا ہے مگر ان کے خیال آج دنیا بہت بدل چکی ہے کارل کے نزدیک امریکہ چین کے بڑھتے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے اتحادیوں کے اعتماد کو بڑھانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی کے حامی اور مخالفین کو الگ الگ کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سی آئی اے کے ایما پر مغربی میڈیا گوئبلز کے فلسفہ کے مطابق جھوٹ کو تکرار کے ذریعے سچ ثابت کرنے کے لئے پورا زور لگا رہا ہے تو امریکا بھی میکاولی کی’’ سوچ اخلاق کے بجائے اہداف‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن میں اپنی تقریر میں پاک امریکہ تعلقات پر قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ وزیر اعظم نے امریکی ٹی وی انٹرویو میں واشگاف الفاظ میں امریکہ کو اڈے نہ دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد چینی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کسی صورت چین کو چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ نہیں جائے گا۔ وزیر اعظم نے پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کر دیئے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ وزیر اعظم امریکیوں کے مزاج اور ماضی سے بے خبر ہوں! امریکی حصار سے نکلنے کی کوششیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو یہاں تک کہ ضیاء الحق بھی امریکی نافرمانی کی قیمت چکا چکے ہیں۔اب عمران خان نے امریکہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے یہ ممکن نہیں کہ امریکہ کی طرف سے ردعمل نہ آئے۔ اس بار صرف عمران خان کی جان کو ہی خطرہ نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کے وجود کو بھی خطرات لاحق ہونگے۔ جب سے امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کیا ہے اس دن سے ہی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں اور افغان سرحد پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ دہشتگرد پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ نہ بناتے ہوں ۔کنزر کے مطابق جو بائیڈن آج جس امریکی خارجہ پالیسی پر گامزن ہیں اس کے خدوخال انہوں نے2015 ء میں بخیثیت نائب صدر چین کے بڑھتے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے طے کیے تھے۔ جو دوست افغانستان سے امریکی انخلا کو طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست سمجھ رہے ہیں ان کو شا ید امریکی چال کا ادراک نہیں کہ امریکہ دانستہ طور پر خطہ کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے۔امریکی ہدف چین اور پاکستان ہے ۔ امریکہ عراق اور شام کو تباہ کرنے کے بعد وہاں سے نکلا یمن کی جنگ سے سعودی عرب کی امداد سے ہاتھ کھینچ کر مشرق وسطیٰ کو مستقل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ اب افغانستان میں نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کا بندوبست کر کے جا رہا ہے ۔ افغانستان کی خانہ جنگی کی آگ میں پاکستان کو لپیٹنے کا بندوبست بھی افغانستان میں داعش اور بھارت کی موجودگی کی صورت میں کردیا گیا ہے۔ طالبان اگر چاہیں بھی تو مستقبل میں امریکی حمایت یافتہ افغان متحارب دھڑوں کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کو خطہ کی نگرانی کے لئے پاکستان میںاڈوں کی ضرورت ہی نہیں، امریکہ یہ کام اپنے جدید سیٹلائٹ نظام سے نا صرف بہتر طریقے سے کر سکتا ہے بلکہ خلا میں اپنے اہداف کو نشانہ بھی بنا سکتاہے۔