دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے۔ آخر آئی ایم ایف سے مفاہمت ہو گئی اور ہونا ہی تھی۔ کتنے دنوں سے پس پردہ ’’تعاون‘‘ چل رہا تھا۔ خبر ہے کہ کیا طے ہوا۔ یہ بات خفیہ رکھی جائے گی۔ خفیہ رکھنے کی درخواست کس فریق نے کی ہوگی؟ خود اندازہ فرما لیجئے۔ خفیہ لیکن کب تک خفیہ رہے گا۔ ایک دن باہر آ ہی جائے گا۔ ایک بات کا پتہ چلا ہے کہ 230 ارب روپے کے ٹیکس عوام کی جیب سے نکالے جائیں گے۔ بدلے میں صرف چھ ارب ڈالر ملیں گے۔ نشانیاں البتہ نمودار ہورہی ہیں، نمودار ہوتی رہیں گی۔ مہنگائی اور بڑھے گی۔ گیس اور بجلی کے بل مزید بھاری بھرکم ہو جائیں گے۔ کچھ اور بھی ہے جو بہت اہم، خاصا بڑا ہے، وہ بھی سامنے آ جائے گا۔ کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے جو باتیں پس پردہ چل رہی تھیں، ان میں ’’سی پیک‘‘ والا معاملہ بھی شامل ہے۔ اتنا تو چھن چھن کر باہر آ ہی چکا ہے کہ اسے ’’محدود‘‘ رکھنے پر اتفاق ہو چکا ہے یا اس کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے۔ کتنا محدود؟ محدود کا ایک رشتہ دار لفظ ’’منجمد‘‘ بھی ہے۔ جاڑے چل رہے ہیں، جاڑوں میں ہر شے منجمد ہو جاتی ہے۔ سی پیک پر بھی جاڑا آیا ہوا ہے۔ یہ دسمبر جنوری والا جاڑا تو جانے والا ہے، دم واپسیں شروع ہے، لیکن جو جاڑا سی پیک پر آیا ہے اس کی رخصتی کیلنڈر سے واضح نہیں۔ امریکہ فتح مند، بھارت خورسند ہے، ایران بھی پراطمینان ہے۔ اسے ایثار سمجھ لیجئے، ہم نے ایک ہی بار تین تین ہمسایوں کا دل ٹوٹنے سے بچا لیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’اسلامی فوج‘‘ کے حوالے سے امریکہ کی مزید فرمائشیں بھی خوشدلی سے قبول کرلی گئی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سبھی کہتے ہیں مہنگائی اور بڑھے گی لیکن کتنی؟ پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے فرمایا تھا کہ اعشاریہ صفر چار فیصد مہنگائی بڑھی ہے۔ چند روز کے بعد ایک اور وزیر نے بتایا کہ ایک فیصد مہنگائی ہوئی ہے۔ سرکاری رپورٹ (محکمہ جاتی) بتاتی ہے کہ ساڑھے سات فیصد بڑھی ہے۔ تین روز پہلے ایک اخبار کی سرخی یہ تھی کہ چھ ماہ میں مہنگائی چالیس فیصد بڑھ گئی۔ اعشاریہ صفر چار فیصد اور ایک فیصد کا موازنہ محکمہ شماریات کے ساڑھے سات فیصد سے کریں۔ یہ اخبار کی اطلاع والی چالیس فیصد اضافے سے؟ اضافہ جتنا بھی ہو، ہر طرف مندی کا موسم ہے۔ مراد سٹاک مارکیٹ سے نہیں ہے، ہر شہر اور قصبے کی ’’مارکیٹ‘‘ سے ہے۔ گاہک کم ہو گئے ہیں، جو آتے ہیں، ان میں سے بھی کئی خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں تو کئی ادھوری بھری جھولی سے۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اچھی حکومت وہ ہے جو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو۔ برحق فرمایا۔ ایسی حکومت کومنتخب حکومت کہا جاتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے اور اسی سے رہنمائی لیتی ہے۔ وزیراعظم نے حکومت کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا جو پارلیمنٹ سے رہنمائی ہی نہیں لیتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعظم نے ایک بات اور بھی ارشاد فرمائی۔ یہ کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی جمہوریت میں کوئی نیب زدہ شخص پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جائے۔ یہ بھی بالکل بجا فرمایا۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں نیب نام کی کوئی شے ہوتی ہی نہیں ہے چنانچہ نیب زدہ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا اور جب کوئی نیب زدہ ہوتا ہی نہیں تو اس کمیٹی کا چیئرمین بننے کا بھی کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ وزیراعظم نے بالکل بجا فرمایا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ…الخ ٭٭٭٭٭ غلط العام یہ ہے کہ نیب کا تعلق احتساب سے ہے۔ صحیح التام یہ ہے کہ خدانخواستہ ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ نیب بنانے کا مقصد ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ تھا اور خدا کے فضل سے، وہ اپنے یوم تاسیس سے لے کر اب تک یہی مقصد پورا کر رہا ہے۔ نیب کے بانی پرویز مشرف تھے۔ اس کا پہلا ٹاسک قاف لیگ اور پیٹریاٹ نامی جماعتیں بنانا تھا۔ آج کے دور میں نیب تبدیلی کی فضا کو تبدیلی ہونے سے روکنے میں اپنا مثالی کردار ادا کر رہا ہے۔ تبدیلی کو خارج سے کوئی خطرہ نہ ہے اور پی ٹی آئی کے لوگ اس لیے زیر گرفت ہیں یا آنے والے ہیں کہ ’’داخل‘‘ سے بھی کوئی مسئلہ نہ ہو۔ بزدار کو محفوظ بنانے کے لیے علم خان اندر ہوئے، پختونخوا میں تبدیلی کی تصحیح کے لیے کچھ لوگ اندر ہونے والے ہیں۔ اس ہفتے راولپنڈی سے مسلم لیگ کے امیدوار قمرالاسلام کی ضمانت پر رہائی کے حوالے سے ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا۔ اس میں لکھا گیا کہ قمرالاسلام پر کوئی الزام ہے ہی نہیں۔ نیب نے بدنیتی سے کیس بنایا۔ نیب نے الیکشن کے دنوں میں جب قمرالاسلام کو پکڑا تھا تو اسے بھی پتہ تھا کہ اس پر کوئی الزام ہے ہی نہیں لیکن سیاسی انجینئرنگ کا تقاضا تھا، حسب فرمائش پکڑا گیا تھا۔ اصولاً اس کے بعد قمرالاسلام کی رہائی ہو جانا چاہیے تھی لیکن کیا ہے کہ نیب کی شروع سے ہی بھولنے کی عادت بھی تو ہے۔ مشرف کے دور میں صدیق الفاروق کو پکڑ کر بھول گیا، اب انہیں۔ یہ تو محض اتفاق ہے کہ دونوں فراموش شدگان کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔ جو تب بھی زیرعتاب تھی، اب بھی راندہ درگاہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعلیٰ بزدار سے مدینہ منور میں سپیکر پنجاب اسمبلی نے ملاقات کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ رہیں گے، ہر صورت ساتھ دیں گے۔ اگرچہ سپیکر صاحب کی لیگ کو مزید وزارتیں مل گئی ہیں اور مزید ملنے والی ہیں اور ’’اصولی اختلافات‘‘ دور ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی بزدار صاحب ہوشیار۔ یہی یقین دہانی بہت پہلے نوازشریف نے بھی دلائی تھی۔