شاید میری قسمت میں رب ذوالجلال نے یہ لکھ رکھا ہے کہ میں اہل ایمان سے مباحثہ کرتا رہوں۔ اوریا مقبول جان کے حوالے سے میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اس میں اور مجھ میں فرق یہ ہے کہ وہ قوت ایمانی میں مجھ سے بہت آگے ہے‘ مگر کیا کروں جو کام مرے رب نے مجھے سونپ رکھا ہے‘ مجھے وہ تو کرنا ہی ہے۔ آج اوریا نے خلافت کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ جمہوریت میں اور خلافت میں کیا فرق ہے وہ ان اہل دانش میں ہیں جو جمہوریت کو نظام کفر کہتے ہیں اور اس کے خلاف صف آرا رہتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ڈرتے ہیں کہ کہیں اسلام کے نام پر اس ملک میں جمہوریت کا بستر ہی گول نہ کر دیا جائے۔ اس کا متبادل ہم بھگت چکے ہیں اس لئے خائف رہتے ہیں پھر یہ مرا فریضہ تو بنتا ہے کہ میں اس پر بات کروں۔ اوریا کی گفتگو میں دو تین باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو خیر یہی کہ جمہوریت میں خیر نہیں۔ دوسری یہ کہ جمہوریت کی جگہ خلافت کی پہلی اینٹ اس اصول پر ہے کہ خلافت کے نظام میں ہر شخص کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اس کے لئے رائے دہندگان کا فیصلہ پیدائش یا عمر کی بنیاد پر کیا جائے گا کہ آپ اتنے برس کے ہو گئے تو آپ ملکی قیادت کے انتخاب میں رائے دینے کے حق دارہو سکتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ حق صرف اس کو حاصل ہو گا جو ایک خاص علمی استعداد اور اخلاقی معیار رکھتا ہو۔ صرف وہ ہی صاحب رائے یا صائب الرائے قرار دیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ ملک میں کوئی پارٹی سسٹم نہیں ہو گا‘ بلکہ صرف یک جماعتی نظام ہو گا جس میں صرف وہ لوگ شامل ہوں گے جنہیں ووٹ دینے کا حق دار قرار دے دیا جائے گا۔ یہ حق انہیں کون دے گا۔ وہ کہتے ہیں یہ قاضی القضاہ کے تحت نظام عدل طے کرے گا کہ کون ووٹ کا حق دار ہے۔ فی الحال یہیں رک جاتے ہیں۔ کیا یہ قوم جمہوریت سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ ہمیں تو ایسی صورت میں مارشل لائوں کا تحفہ ملا ہے۔مغرب کی جمہوریت پر بہت سے مفکرین نے اعتراضات کئے ہیں۔ ہمارے اقبال نے بھی کس خوبصورتی سے اس نیلم پری کو بے نقاب کیا ہے‘ لیکن اقبال کوئی آرم چیئر فلسفی نہیں تھے‘ وہ ساتھی کو ان کی ٹھوس شکل میں لیتے تھے۔ ان کے سامنے خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا۔ انہوں نے عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بھی اپنے سامنے ہوتے دیکھا۔ انہوں نے اسے جمہوریت اور خلافت کے خلاف جنگ نہیں بنایا بلکہ ترکی کے جمہوری تجربے پر جس ہمدردانہ انداز میں اظہار کیا وہ کسی ایسی ہی قدوقامت کی شخصیت کے بس کی بات ہے۔ ہم تو جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں دیکھ کر مارشل لائوں کی گود میں چلے گئے۔ مغرب والے تو بالکل مارے گئے۔ انہوں نے کمیونزم اور فاشزم کا مزہ چکھا۔ بالآخر اس نتیجے میں پہنچے کہ ردعمل بہرحال مسائل کا حل نہیں ہے اگر مجھے صائب الرائے افراد کی تلاش میں علمی استعداد اور اخلاقی معیار کی قدغن لگانا ہے اور یہ کام کسی ثاقب نثار یا افتخارچودھری کو سونپا ہے تو میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ بی اے کی شرط مشرف لگا چکے ہیں اور صادق و امین کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ یہ کون سی خلافت ہے جو اس طرح قائم ہو گی۔ بی اے والی شرط چھوڑیے‘ کسی شخص کی علمی استعداد مانپنے کا پیمانہ کیا ہو گا اور اخلاقی معیار کون پرکھے گا۔ پھر اس کے بعد وہ ایک مجلس شوریٰ چنیں گے جو خلیفہ کا انتخاب کرے گی۔ اسے کمیونزم والے پولٹ بیورو کہتے ہیں۔یہ آپ خلافت کے نام پر کون سا نظام لانا چاہتے ہیں اس سے تو وہی لوگ اچھے جو کہتے ہیں خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے ہی نہیں یہ جاوید غامدی والے۔ میں خواہ مخواہ ان سے الجھتا رہتا ہوں اگر خلافت کے نام پر ہمارے ہاں آمریت مسلط کی جانا ہے تو پھر نواز شریف کی وہ اپنی ترمیم کیا بری تھی جس میں وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔ یہ سمجھنا کہ کثیرالجماعتی نظام میں کارپوریٹ سیکٹر اپنے سرمائے سے پارٹیوں میں نفوذ کر جاتا ہے یہ کہاں ثابت کرتا ہے کہ اگر خلافت کے دوش بدوش سرمایہ دارانہ نظام بھی چلے گا تو کیا وہ آپ کے پورے بولٹ بیورو کو اغوا نہیں کر لے گا۔ وہ اپنے بندوں کے لئے حق رائے دہی حاصل کرنے کے لئے دبائو نہیں ڈالے گا اور اگر آپ اپنا نظام معیشت بھی بدلنا چاہتے ہیں تو چلتے چلتے اس کا نقشہ بھی پیش کر دیجیے۔ صرف یہ کہنے سے گزارا نہیں ہو گا کہ اس میں سود نہیں ہو گا اور زکوٰۃ ہو گی۔پوری اسلامی اقتصادی منصوبہ بندی چاہیے۔ دنیا میں رائج دونوں نظاموں کے مقابلے میں۔ 1۔پاکستان کے لوگوں سے ریفرنڈم کروا کر پوچھ لیجیے کہ انہیں جمہوریت نہیں چاہیے۔2۔ صرف یک جماعتی سیاسی نظام چاہیے۔3۔ خلیفہ کا انتخاب ایک پولٹ بیورو کرے گا۔4۔ اور آپ آدمی کو ووٹ کا حق نہیں ہو گا۔ اس حق کے لئے آپ کو مراحل سے گزرنا پڑے گا۔5۔ ہاں ذرا علمی استعداد اور اخلاقی معیار کی وضاحت بھی کر دیجیے۔ جس کی وجہ سے آپ کو ووٹ کا حق ملے گا۔ بہت سے لوگ ہیں جو نظام خلافت کی بات کرتے ہیں۔ ایک تو ہمارے ہاں ڈاکٹر اسرار احمد تھے۔ دوسرے حزب التحریر والے ہیں۔ یہ تحریک چونکہ لبنان سے چلی تھی۔ اس لئے ان کا فوری مسئلہ خلافت عثمانیہ کی تباہی تھا۔ یہ کوئی خلافت علی منہاج انبوۃ کی بات نہیں کرتے تھے۔ یا جیسے آج کل ریاست مدینہ کا تذکرہ ہو رہا ہے ‘ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کا تسلسل چاہیے۔ جب سلطنت عثمانیہ تھی تو اس وقت مسلمان مضبوط اورطاقتور تھے۔ وہ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیںکہ خلافت کی جدوجہد میں فزیکل قوت استعمال نہیں ہو گی۔ عملی طور پر وہ ایسا کر نہیں پاتے۔ وسط ایشیا اور مصر وغیرہ میں ان کی جدوجہد کی مثالیں ملتی ہیں۔ وہ نصرت فوج سے مانگتے ہیں۔ ان سے جب اس تضاد کی وجہ پوچھی جائے تو وہ چپکے سے کان میں کہتے ہیں کہ پہلا خلیفہ تو فوجی طاقت ہی سے آئے گا۔ بھائی ایسے تضاد دور کرنا ہوں گے۔ اکثر جب خلافت کے قیام کی بات ہوتی ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ اس میں بعض لوگ یہ تصور شامل کر لیتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی اسلامی حکومت یعنی خلیفہ کرہ ارض پر ایک ہی ہو گا۔ اس لئے کہ وہ تو تورانی رہے باقی نہ ایرانی کا مطلب یہی لیتے ہیں کہ قومی ریاستوں کا وجود ہی غلط ہے۔ مرا مسئلہ یہ ہے کہ میں فی الحال ایسی اسلام ازم کے ہاتھوں پاکستان سے دستبردار نہیں ہو سکتا کہ یہ مملکت خداداد اسلامیان ہند کے لئے خدا کا تحفہ ہے اور مجھے اس کی حفاظت کرنا ہے‘ اللہ کا ایک ناشکر گزار بندہ نہیں بنتا۔ اگر کوئی مشکل بنتی ہے کہ پوری دنیا میں خلافت اسلامیہ قائم ہو جاتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی مجھے ہو گی۔ لیکن اس خلافت کی شکل وہ ہوئی جس کا نقشہ آپ بتا رہے ہیں تو پہلے تو یہ اس وقت ایک ناممکن بات ہے‘ پھر یہ اس طرح ناکام رہے گی جس طرح مغرب میں کمیونزم اور فاشزم ناکام ہوا ہے۔ خدا کے لئے کوئی قابل عمل حل سوچئے جو مسلمانوں کو راہ راست پر چلا سکے۔ یک جماعتی طرز حکمرانی مجھے گوارا نہیں۔ حق رائے دہی کے حصول کے لئے کسی کے چرنوں پر جھکنا کوئی درست طرز عمل نہیں اور ہاں یہ تو میں بھول گیا کہ صدر یا خلیفہ کو پورے ملک سے بیعت بھی لینا پڑے گی۔ اس کا طریق کار کیا ہو گا۔ یہ سب باتیں مرے خواب تو ہو سکتے ہیں۔ مگر نہ ان کا عملی دنیا مرے تحت الشعور یا اجتماعی شعور کا حصہ یا نیم آفاقی آر کی ٹائپ سے کوئی تعلق ہے۔ نہ اسلام کے نظام خلافت سے ازمنہ قدیم میں جس طرح یہ نظام نافذ ہوا‘ اسے اپنے خیالوں میں جدید عہد کے مطابق ڈھال کر کوئی نقشہ تو بن سکتا ہے‘ مگر اسے اسلام نہیں کہہ سکتے یہ مرے تصورات ہیں۔ اسلام اپنے آغاز ہی سے دنیا کا سب سے تازہ اور مستقبل آشنا نظام تھا۔ آج ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا اور یہاں سے آغاز کرنا ہو گا۔