ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور‘ اسلام کے اہل الرائے یا صاحب الرائے ہونے کے تصور کی ضد ہے۔ یوں تو یہ پوری معاشرتی زندگی کی ضد ہے لیکن اسے گزشتہ دو صدیوں سے ایک جمہوری فیشن بنا دیا گیا ہے اور اس فیشن کی ہر جمہوری ملک میں بہت مختصر عمر ہوتی ہے۔ جتنے دن الیکشن کا ہنگامہ چلتا رہتا ہے ایک ووٹر کی عزت و توقیر کے ڈنکے بجتے رہتے ہیں لیکن جس دن وہ اپنی رائے کا اظہار کر کے گھر واپس لوٹتا ہے تو اس کی رائے کا تمام اختیار ممبران پارلیمنٹ لے لیتے ہیں یا صدر مملکت کے ہاتھ میں وہ طاقت آ جاتی ہے۔ ہر ملک میں اس اختیار کی ایک مدت مقرر ہے۔ عملی طور پر دنیا میں ایک آدمی ایک ووٹ کا آزادانہ تصوربہت کم لوگ جانتے اور استعمال کرتے ہیں۔ تمام جمہوری ووٹروں کو پارٹیوں‘ گروہوں ‘ قبیلوں‘ برادریوں اور مسلکوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔ اس لئے اصل میں ان تمام گروہوں کے سربراہ اور کرتا دھرتا ہی اہل الرائے اور صاحب الرائے ہوتے ہیں۔ باقی لوگ رائے نہیں دیتے ان کی رائے کے مطابق پرچی ڈالتے ہیں۔ امریکہ کی ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے سربراہ یا اہم رہنمائوں کی باڈی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور اس پارٹی کے عوام اسے ووٹ دے کر آتے ہیں‘ خواہ وہ شخص کتنا ہی برا کیوں نہ ہو۔ پاکستان میں تو اہل الرائے کی تعداد بہت واضح اور قابل فہم ہے۔ نون لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم کے ارکان‘ حمایتی ہمدرد کیا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں؟ جسے پارٹی نے کھڑا کر دیا، آنکھیں بند کر کے اسے ووٹ ڈال آتے ہیں۔ پیروں کے مرید‘ مدارس کے طالب علم‘ مسلکوں کے پیچھے چلنے والے‘ قبیلے کے افراد اور برادری کے محتاج سب کے سب اپنے گروہ کے سربراہ کے اشارے پر ووٹ ڈال آتے ہیں۔ جمہوریت کے طبلہ نواز ان سرداروں‘ وڈیروں‘ مولویوں‘ پیروں ‘ چودھریوں ‘ پارٹی سربراہوں اور دیگر قوت و غلبہ رکھنے والوں کو رائے عامہ بنانے والے یعنی opinion meherکہتے ہیں۔ جو سراسر جھوٹ ہے۔ یہ سب کے سب گروہی اور پارٹی سیاست اور مفادات کے کھیل میں ڈوبے ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں جس پر ان کے گروہ کے افراد اندھا دھند عمل کرتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ جن کے شکنجے میں ایک ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک ووٹ ہوتے ہیں اگر ان کو گنا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ ہیں جدید جمہوری نظام کے اصل ووٹر‘ اصل صائب الرائے ‘ اصل اہل الرائے۔ لیکن ایک دھوکے اور فریب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جمہوریت میں ایک فرد ایک ووٹ کا نظام نافذ ہے۔ خلافت کے نظام کے نفاذ کا طریق کار طے کرتے ہوئے اس دھوکے اور فریب سے باہر نکلنا ہو گا۔ سب سے پہلا خدو خال جو طے کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ اہل الرائے یا صاحب الرائے کون ہے اور اس میں کون سی منفی خصوصیات نہیں ہونا چاہئیں۔ عموماً ہمارے افراد مثبت خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انہیں مانپنے کے لئے کون سا پیمانہ ہو گا۔ جبکہ صاحب الرائے کے لئے سب سے پہلے نااہل (excution) کی کیٹگری آئے گی، یعنی ایسے کون سے افراد ہوں گے جو ووٹ دینے کے لئے نااہل ہو سکتے ہیں، ان میں سزا یافتہ مجرم، فاتر العقل، مکمل ناخواندہ اور اسی طرح دیگر کی فہرست بن جائے گی، اسی طرح جیسے 18سال سے کم عمر کے بچے ووٹ دینے سے نااہل ہوتے ہیں۔ اب رائے دینے کے اہل کے لئے آپ کو ایک معیار مقرر کرنا ہو گا، ایسا معیار جیسا دنیا کے ہرشعبے کو اختیار کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے اس کے لئے ایک ابتدائی معیار ہونا ہے اور پھر اس کے بعد اس کی حد بڑھائی جاتی ہے جسے qualificationکہا جاتا ہے۔ نظام خلافت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ایک صاحب الرائے افراد کا کیڈر(cader) بنانا پڑے گا جس میں داخل ہونے کے لئے آپ چند خصوصیات کے حامل ہوں ۔ چند تعلیمی معیارات اور ریاستی امور کے بارے میں آپ کا ایک خاص سطح کا علم ہونا چاہیے۔ یوں اس کیڈر (cader) میں داخل ہونے کے لئے ہر شہری کو ان خصوصیات کو حاصل کرنا ہو گا ایسا کیڈر بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اس کے لئے ایک علیحدہ ڈائریکٹوریٹ یا کمیشن بنایا جانا چاہیے جو صاحب الرائے افراد کے لئے تمام ٹیسٹ لے کر اور معلومات کی بنیاد پر انہیں ووٹنگ کارڈ جاری کرے یہ کام اس لئے مشکل نہیں کہ اس کمیشن میں صرف اور صرف ایماندار لوگوں کو رکھا جائے جو اس اہم فریضے کوادا کرتے ہوئے بے ایمانی نہ کر سکیں جو ملک آسانی کے ساتھ ٹیکس دینے والوں‘ بے نظیر سپورٹ پروگرام کے تحت مدد لینے والوں کی تحقیق کے ساتھ لسٹیں بنا سکتا ہے اس کے لئے ایسے افراد کی لسٹ بنانا بھی مشکل نہ ہو گا۔ پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں سے دس کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹر ہیں یعنی آدھی آبادی پہلی بنیادی شرط عمر کی وجہ سے خارج ہے، اس کے بعد ووٹ دینے کے عمل کا حصہ بننے والے کبھی چالیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ یعنی چار کروڑ لوگ بائیس کروڑ عوام کا فیصلہ کرتے ہیں ان میں بھی پارلیمانی نظام کے تحت جس شخص کو حکمرانی ملتی ہے اس نے بہت کم لوگ ووٹ لیے ہوتے ہیں مثلاً تحریک انصاف کو بائیس کروڑ میں سے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ افراد کا اعتماد حاصل ہے اور وہ بائیس کروڑ پر ان ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی رائے سے حکمران ہے۔ نظام خلافت میں اس ڈیڑھ کروڑ کی تعداد کو مزید کم کرتے ہوئے اور معیار پر بنیاد رکھتے ہوئے ایک لسٹ مرتب کی جا سکتی ہے اور پھر اس لسٹ یا صاحب الرائے افراد کے گروہ میں شامل ہونے کے لئے لوگوں کو محنت کرنا ہو گی اور ہر سال ان معیاری افراد کی تعداد بڑھتی رہے گی۔ یہ سب اس لئے کہ اسلام میں طاقت سے اقتدار پر قبضے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ایک بیعت عام ہوتی ہے۔ لیکن اس بیعت عام سے پہلے صاحب الرائے افراد خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ابتدائی ادوار یعنی دورخلافت راشدہ میں صاحب الرائے کا تعین رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں ہو چکا تھا اور ان کے درجات تک متعین تھے۔ مثلاً انصار و مہاجرین‘ اصحاب بدر‘ احد ‘ خندق اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والے ان سب کی رائے کا وزن بھی مختلف تھا اور ان کا مرتبہ بھی۔ حجتہ الوداع کے وقت صحابہ کرامؓ کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس وقت اگر ایک مربوط نظام بنانا مقصود ہوتا تو یہ پہلے صاحب الرائے افراد کا گروہ یا کیڈر ہوتا۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق اور یہی وہ مرحلہ ہے جو طے کرے گا کہ آپ نے حکمران کون سا اور کیسا منتخب کرنا ہے۔ صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ جمہوریت میں الٹی گنگا ہے۔ حکمران ایماندار اور صاحب کردار ہو جبکہ اس کو منتخب کرنے والوں ووٹروں کی اکثریت بے ایمان اور بدکردارہو۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے آپ ووٹ دینے والے ‘ صاحب الرائے افرادپر ایمانداری اور کردار کی شرط عائد کر دیں۔ آپ کے حکمران خود بخود قابل رشک کردار کے حامل سامنے آ جائیں گے۔ پارلیمانی اور صدارتی نظام کی اس جنگ میں اگر اس ملک میں نظام بدلتا ہے تو پھر خلافت کے نظام پر بھی گفتگو ضروری ہے۔ آج آپ ریفرنڈم کروا لیں۔ تین نظاموں‘ پارلیمانی جمہوریت‘ صدارتی جمہوریت اور خلافت کے درمیان رائے لیں‘ آپ کو نوے فیصد سے زیادہ لوگ خلافت کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملیں گے۔ (جاری)